وزیراعظم مودی کا دورہ ٔچین

اک دوسرے سے حال چھپانا محال ہے
کچھ آئینہ سے آپ ہیں کچھ آئینہ سے ہم
وزیراعظم مودی کا دورہ ٔچین
وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ چین کے موقع پر میزبان ملک کے میڈیا نے ہندوستان کے متنازعہ نقشہ میں اروناچل پردیش اور جموں و کشمیر کو حذف کرکے بتایا، جس کے فوری بعد سوشیل میڈیا پر شدید ردعمل ظاہر کیا جانے لگا ہے۔ چین کی جانب سے اکثر و بیشتر اروناچل پردیش کے نقشہ کو لیکر متنازعہ کارروائی ہوتی ہے۔ چین 1962 کی خون ریز جنگ کے بعد سے سرحدی تنازعہ کو ہوا دینے سے باز نہیں آتا۔ چین کے سرکاری نقشوں میں بھی اروناچل پردیش کو جنوبی تبت کا حصہ بتایا جاتا ہے۔ ہندوستانی نقشہ کی یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب وزیراعظم مودی چین کے 3 روزہ دورہ پر پہنچے۔ انہیں یہاں اہم مسائل جیسے دہشت گردی اور تجارت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ایک خوشگوار فضاء قائم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ صدر چین ژی ژپنگ کے ساتھ ان کی ملاقات میں مودی نے اس نقشہ کی جانب توجہ مبذول کرانے سے گریز کیوں کیا یہ غور طلب امر ہیکیونکہ وزیراعظم کی ٹیم میں شامل عہدیداروں نے بھی اس متنازعہ نقشہ پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن اس نقشہ کو ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے کے وقت کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ اس سے دو دن قبل ہی چین کی میڈیا میں نسل کشی پر ایک مضمون شائع کیا گیا تھا۔ اس پر بھی ہندوستان نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ویسے اس طرح کے نقشہ کو ٹوئیٹر پر ایک سے زائد مرتبہ بتایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شدید برہمی کا اظہار بھی کیا گیا۔ چین یا اس کے سرکاری و خانگی اداروں کی جانب سے نقشہ کے ساتھ کی جانے والی چھیڑچھاڑ کا سخت نوٹ لیا جانا چاہئے۔ اس طرح کی متنازعہ حرکتوں کے درمیان وزیراعظم مودی کے دورہ کا بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آخر مودی چین کا دورہ کیوں کررہے ہیں؟ وزیراعظم مودی اپنے قبل ا زیں اختیار کردہ دوستانہ موقف کے باوجود اپنے ذہن میں غیرضروری امکانات پیدا ہورہے ہوں گے۔ انہوں نے صدر چین ژی ژپنگ کے دورہ ہندوستان کے دوران جو پیام دیا تھا اس کو چین نے خاطر میں ہی نہیں لایا ہے۔ چین کی جانب سے اکثر بلااشتعال اور بڑے پیمانے پر آزادی کے ساتھ سرحدی تنازعہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اس مسئلہ پر ہندوستان نے کبھی سخت کبھی نرم رویہ اختیار کیا ۔ وزیراعظم مودی نے یہ تو ظاہر کردیا ہے کہ وہ اپنے پیشرو وزیراعظم منموہن سنگھ کے برتاؤ اور حسن سلوک سے مختلف اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لئے مودی کو چین کے معاملہ میں منموہن سنگھ کی راہ اختیار کرنی چاہئے لیکن افسوس اس بات کا ہیکہ مقامی طور پر ہندوستان نے اپنی ناراضگی ظاہر نہیں کی ہے۔ چین نے ہمیشہ خود کو ایک بالادست ملک تصور کیا ہے۔ تبت کے معاملہ میں بھی چین کی رائے موافق نہیں ہے۔ ایسے میں وزیراعظم کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ ہندوستان تبت میں اپنی تعمیری سرگرمیوں کو جاری رکھے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ 10 بلین لاگتی معاہدے کرنے کی بھی تجویز ہے تو اس کے ساتھ چین میں ہندوستانی سرمایہ کاری کو بہتر مواقع پیدا کرنے کی جانب بھی توجہ دینی ہوگی۔ مودی کے دورہ سے یہ توقع ہورہی ہیکہ وہ اپنے 3 روزہ دورہ کے دوران دونوں ملکوں میں پایا جانے والا فرق دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ چین کو بھی اس دورہ کو کامیاب بنانے کیلئے نئی دہلی کے ساتھ پارٹنر شپ کے امکان کو وسیع کرنا ہوگا۔ ہند ۔ چین سرحدی تنازعہ کے ساتھ ایک طویل مدتی استحکام کی تمنا رکھنا کوئی معیوب بات نہیں؟ دونوں ملکوں کی مضبوط قیادت کو ہی اپنے تعلقات اور روابط میں مضبوط رہبری پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ سرحدی تنازعہ پر بات چیت بھی ایک اہم موضوع ہے۔ چین نے ہندوستان کو ساتھ رکھ کر عالمی حکمرانی کیلئے نئے قواعد و قوانین کو ترجیح دینی ہے تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اصلاحات کو بھی شامل کیا جانا چاہئے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو اندرون ملک کئی ذمہ داریاں انجام دینی ہے تو وہ چین کے دورہ پر ہیں۔ انہوں نے سرحدی تنازعہ خاص کر حقیقی خطہ قبضہ کے مسئلہ پر چینی قیادت سے دوٹوک بات نہیں کی ہے۔ ایشیاء کے دو سب سے بڑے ملکوں کے درمیان نئی سمت عطا کرنے کا عہد تو کیا گیا ہے لیکن صدر چین اور وزیراعظم چین مودی کی بات چیت میں سرحدی مسئلہ پر چین کے موقف کو ہی برتری دیکھی گئی۔ اگرچیکہ چینی قیادت نے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی مسئلہ پر پائے جانے والے اختلافات کو تسلیم کرلیا گیا مگر اس کی یکسوئی میں کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دی۔