وزیراعظم مودی اور عالمی برادری

برسوں سے سناتے ہیں وہی طرز بدل کر
ہر اِک کو پتا ہے وہ نیا کچھ نہیں کہتے
وزیراعظم مودی اور عالمی برادری
وزیراعظم نریندر مودی نے سہ قومی ماینمار، آسٹریلیا اور فجی کے 9 روزہ دورہ کے بعد بین الاقوامی سطح پر یہ پیام دیا ہے کہ ہندوستان کو بیرونی سرمایہ کاری کے لئے ایک محفوظ مقام بنانے ان کی حکومت ہرممکنہ کوشش کرے گی۔ اُنھوں نے مشرقی ایشیا اور آسیان ہند چوٹی کانفرنس میں شرکت کی۔ آسٹریلیا میں جی 20 چوٹی کانفرنس میں تمام بڑی معیشتوں کی توجہ ہندوستان کی ترقی کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی۔ فجی کو ان کا دورہ ایک الگ نوعیت کا تھا کیوں کہ اس ملک کو اندرا گاندھی کے بعد دورہ کرنے والے وہ پہلے ہندوستانی وزیراعظم ہیں۔ 1981 ء میں اندرا گاندھی نے دورہ کرتے ہوئے اس کی ترقی کے لئے ہندوستان کے تعاون کی پیشکش کی تھی۔ مودی نے بھی فجی کے شہریوں کے لئے آمد پر ویزا جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کے اعلانات کسی بھی وزیراعظم کے لئے کوئی بڑا کام نہیں کہلاتا۔ آسٹریلیا میں انھوں نے اپنے ہم منصب کے ساتھ بھی بات چیت میں غیر مقیم ہندوستانیوں کے مسائل کے بارے میں واضح موقف ظاہر نہیں کیا۔ اگرچیکہ آسٹریلیا میں مقیم ہندوستانیوں نے ان کے استقبال کے لئے جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہندوستانی طلباء کے مسائل کے بارے میں ان کی توجہ ہوتی تو اس سے کئی طلباء کے تعلیمی مستقبل کو استحکام ملتا۔ آسٹریلیا میں تعلیمی ویزا قواعد سخت ہیں جن میں نرمی لانے کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے بیرونی دورہ کے دوران ہندوستان کی مارکٹنگ کو مؤثر طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کی مگر اس کے عوض خاص سرمایہ کاری حاصل ہونے کی توقع موہوم دکھائی دیتی ہے۔ میک اِن انڈیا کے نعرہ کو اس وقت ہی کامیاب سمجھا جائے گا جب بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ آسٹریلیا کے دورہ کے دوران انھوں نے کئی موضوعات پر توجہ مرکوز کی تھی۔ اول تو انھوں نے جی 20 چوٹی کانفرنس میں ہندوستان کی ترجیحات اور تشویش کو اُجاگر کرتے ہوئے عالمی قائدین کو کالے دھن کے مسئلہ پر ہندوستان سے تعاون کرنے کی کامیاب ترغیب دی۔ لیکن وہ کالا دھن واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کالے دھن کی وجہ سے ہی ہندوستان میں سکیورٹی کے سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اس مسئلہ پر عالمی تعاون کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں عوام الناس میں صاف صفائی کی بیداری پیدا کرنے کی مہم کو کامیاب بتایا مگر سرکاری اداروں میں کرپشن کو پاک کرنے میں کوئی خاص مظاہرہ نہیں کیا اسی لئے معاشی سطح پر ہندوستان کی ترقی کو جی 20 ملکوں کی سطح پر لے جانے میں کامیابی ملے گی، یہ بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں رشوت کو عام کرنے والی کالی بھیڑوں سے پاک کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ مودی نے سہ قومی دورہ میں تمام عالمی قائدین سے ملاقات کی ان میں مہذب دنیا کے نام نہاد قائدین بھی تھے جنھوں نے انسانی حقوق کے معاملہ میں دوہرا پن اختیار کیا ہے۔ انصاف اور عدالتی نظام کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق چلانے والے حکمرانوں میں مودی کو شمار کرنے والوں نے یہ بھی تنقید کی ہے کہ مودی اپنے تمام اداروں کو ان کے حدود میں رہ کر کام کرنے کا پابند نہیں بناسکیں گے۔ ہندوستان کو مصنوعات سازی کا مرکز بنانے کا عزم رکھنے والے وزیراعظم کو سب سے پہلے سرخ فیتہ کو ختم کرنا ہوگا۔ ہندوستان میں مصنوعات سازی میں لاگت کم آتی ہے اور یہاں تیار ہونے والی اشیاء کی قیمتوں کو بھی کم کرنے سے اشیاء کو قوت خریدی کے مطابق بنایا جاسکتا ہے۔ اگر ترقی پذیر ممالک اپنی تجارت پر عائد محصولات میں کمی کردیں تو اس سے خام مال کی قیمت میں بھی مفید کمی ہوگی۔ ہندوستان کو عالمی تجارتی و مسابقتی دوڑ میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کا موقع ملے گا۔ وزیراعظم مودی نے اپنے سہ قومی ادارہ سے جو تجربہ حاصل کیا ہے اس کے اندرون ملک بہتر تبدیلیوں کی توقع کی جاتی ہے۔
صدر امریکہ اوباما کو دورۂ ہند کی دعوت
صدر امریکہ بارک اوباما کے مجوزہ دورہ ہندوستان اور 26 جنوری 2015 ء کے یوم جمہوریہ تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت ہند ۔ امریکہ باہمی حکمت عملی کی شراکت داری کو مضبوط و مستحکم بنانے کا ایک عظیم موقع ہے۔ امریکہ کے یہ پہلے صدر ہیں جو یوم جمہوریہ تقریب میں شرکت کریں گے۔ ہند ۔ امریکی سفارتی تعلقات کو ایک نئی سطح اور اونچائی تک لے جانے کی کوششیں ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب صدر امریکہ نے ایمگریشن قانون میں نرمی لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے صدارتی آرڈر جاری کیا تھا۔ اس آرڈر سے امریکہ میں مقیم کئی ہندوستانیوں کے ایمگریشن کا مسئلہ حل ہوگا۔ سفارتی تعلقات کو مستحکم بنانے کی یہ کوشش حالیہ ہند ۔ امریکہ کشیدہ تعلقات کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ ٹھیک ایک سال قبل ہی ہندوستانی سفارت خانہ کی ایک عہدیدار دیویانی کھوبرگاڑے کو نیویارک ایرپورٹ پر گرفتار کرنے اور ان پر خادمہ کے ساتھ زیادتی کرنے کے الزامات اور ویزا میں دھوکہ دہی جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی سطح پر تلخیاں پیدا کی گئی تھیں۔ اب بارک اوباما نے وزیراعظم ہند کی دعوت کو قبول کیا ہے تو دونوں ملکوں کے سفارتی اُمور خاص کر ہندوستانی شہریوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر توجہ دے کر اس شکایت کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدور کی ہندوستان سے روابط کی پالیسیوں کو خصوصاً ان کی میعاد کے آخری مہینوں میں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ سابق میں ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن نے بھی اپنی دوسری میعاد کے آخری دنوں میں ہندوستان کے ساتھ سفارتی و دوستانہ تعلقات کو وسعت دی تھی اور حیدرآباد کا بھی دورہ کرتے ہوئے کئی فلاحی کاموں کا افتتاح کیا تھا۔ جارج بش کے دورہ کے دوران بھی حیدرآباد کو امریکی صدر کے دورہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اب نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد امریکی صدر کا یہ پہلا دورہ اور خاص کر یوم جمہوریہ کے موقع پر ہونے والے اس سفر کو حیدرآباد تک وسعت دیتے ہوئے کئی فلاحی کاموں اور نئی ریاست تلنگانہ کو عالمی سطح پر ایک بہترین ریاست کے طور پر متعارف کرانے کا موقع مل رہا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کو اس موقع سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال وزیراعظم جاپان کو یوم جمہوریہ پریڈ کے مشاہدہ کے لئے مدعو کرکے انھیں اعزاز دیا گیا تھا۔ اب اوباما کو دورہ کی دعوت سے برصغیر میں ہند ۔ پاکستان کشیدہ تعلقات کو ختم کرنے میں بھی بڑا معاون ثابت ہوجائے تو یہ اہم تبدیلی متصور ہوگی۔