ہر شخص سمجھتا ہے کہ حقدار وہی ہے
احساس ذمہ داری تو عنقا ہے آج کل
وزارت عظمی کی دعویداریاں
جیسے جیسے لوک سبھا انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں ملک میں سیاسی ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے ۔ تقریبا تمام جماعتیں انتخابات میں کامیابی کیلئے حکمت عملی بنانے میں مصروف ہوگئی ہیں ۔ ہر جماعت رائے دہندوں کو راغب کرنے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ کوئی جماعت باضابطہ طور پر اپنے وزارت عظمی امیدوار کے نام کا اعلان کرچکی ہے تو کوئی جماعت ابھی اس پر غور کر رہی ہے ۔ کوئی راست بازی سے کام لینے کی بجائے اشاروں کی زبان میں بات کر رہا ہے ۔ بی جے پی نے بہت پہلے ہی نریندر مودی کو اپنا وزارت عظمی امیدوارنامزد کردیا ہے ۔ اس سلسلہ میں کئی سینئر قائدین کی ناراضگی کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا ۔ پارٹی کا احساس ہے کہ نریندر مودی کی شخصیت اور ان کی خود ساختہ مقبولیت کے بل بوتے پر پارٹی کو اقتدار حاصل ہوجائے گا ۔ دوسری جانب چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو جس طرح سے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے بعد کانگریس پارٹی بھی ایسا لگتا ہے کہ اپنی روایت سے انحراف کرتے ہوئے انہیں وزارت عظمی امیدوار نامزد کردے گی ۔ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی پریس کانفرنس میں باضابطہ اعلان کردیا ہے کہ وہ تیسری معیاد کیلئے وزارت عظمی کی ذمہ داری نہیں سنبھالیں گے اور آئندہ انتخابات کے بعد اقتدار نئے وزیر اعظم کو سونپ دینگے اور ہوسکتا ہے کہ یہ وزیر اعظم یو پی اے ہی کا ہو ۔ کانگریس اور بی جے پی تو ملک میں اقتدار کے دعویدار ہیں اور ان کی اس طرح کی کوششیں ان کی حکمت عملی کا حصہ نظر آتی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزارت عظمی کا عہدہ اب تقریبا ہر سیاسی قائد کا اصل مقصد و نشانہ بن چکا ہے ۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو ایک طویل عرصہ سے اس عہدہ پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ سماجوادی پارٹی قائدین مسلسل کہتے آ رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد تیسرا محاذ قائم ہوسکتا ہے اور ملائم سنگھ یادو غیر کانگریسی و غیر بی جے پی اتحاد کی حکومت کے وزیر اعظم ہوسکتے ہیں۔ خود ملائم سنگھ یادو بھی اس تعلق سے ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنا مقصد و منشا بیان کرچکے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی بھی وزیر اعظم بننا چاہتی ہیں اور ان کے عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اب وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے کہا ہے کہ اگر ان کے سیاسی گرو شرد پوار ملک کے وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو انہیں خوشی ہوگی ۔ کیونکہ وہ شرد پوار ہی کی وجہ سے سیاست میں داخل ہوسکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ مسٹر پوار وزیر اعظم بن جائیں۔
اطلاعات یہ ہیں کہ چیف منسٹر ٹاملناڈو آل انڈیا انا ڈی ایم کے کی سربراہ جئے للیتا بھی وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھتی ہیں۔ اب مختلف گوشوں سے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال کا نام بھی اس عہدہ کیلئے پیش کیا جارہا ہے حالانکہ خود کجریوال نے اس تعلق سے کچھ بھی کہنے سے اب تک گریز کیا ہوا ہے اور انہوں نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ وہ لوک سبھا انتخابات میں مقابلہ نہیں کرینگے ۔ حال ہی میں کئے گئے ایک سروے میں عوامی مقبولیت کے گراف میں کجریوال کو مودی کے بعد دوسرے نمبر پر دکھایا گیا ہے جبکہ راہول گاندھی کافی فرق سے تیسرے نمبر پر رہے ۔ بحیثیت مجموعی جو تاثر مل رہا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک کے سامنے صرف وزارت عظمی کی کرسی ہے اور وہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں حقائق کو بھی سامنے رکھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ویسے تو آزاد اور جمہوری ہندوستان میں ہر ایک کو ایسی خواہش رکھنے کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن حقائق سے نظریں چرانا بھی درست نہیں ہوسکتا ۔ جو اعداد و شمار فی الحال ہیں وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے بعد بدلنے والے ہیں۔ جو صورتحال سامنے ہوگی اس میں کوئی واضح منظر ابھر سکتا ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی کے مابین انتخابی لڑائی میں کسی تیسرے محاذ کے ابھرنے کے تعلق سے بھی امیدیں ظاہر کی جا رہی ہیںلیکن ملک کے رائے دہندے اپنے ووٹ کے ذریعہ کیا فیصلہ سناتے ہیں یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوسکتا ۔ خاص طور پر دہلی اسمبلی انتخابات کے بعد سے سیاسی منظر نامہ میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں وہ تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی توقعات اور ان کے اندازوں سے مختلف ہیں۔انتخابات کے بعد کی صورتحال بھی ایسی ہی ہوسکتی ہے ۔
اس سارے عمل میں یہ بات بہت واضح ہوگئی ہے ملک اور ملک کے عوام کو جو مسائل ہیں وہ کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں اور کوئی بھی جماعت یا امیدوار ایسا نہیں ہے جو عوامی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے عوام کی رائے حاصل کرنے کو تیار ہو ۔ ہر کوئی مختلف ہتھکنڈے اختیار کرنے میں مصروف ہے اور شائد یہ انتخابات اپنے آپ میں اس اعتبار سے منفرد ہونگے کہ بغیر کسی ایجنڈہ اور بغیر کسی منشور کے لڑے جائیں گے ۔ حالانکہ ضابطہ کی تکمیل کیلئے یہ کام تقریبا ہر جماعت کریگی لیکن ہر جماعت شخصیت پرستی پر اتر آئی ہے ۔ چاہے یہ بی جے پی ہو یا کانگریس ہو یا پھر عام آدمی پارٹی ہو ۔ سیاسی قائدین اور جماعتوں کی اقتدار اعلی کیلئے ہوس اور کسی کی چاہ اب عوام سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے ۔ ترقیاتی نعرے اور عوامی فلاح و بہبود کا مسئلہ کسی کیلئے بھی اولین ترجیح کا حامل نہیں رہا ہے ۔ سیاسی جماعتیں دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ صرف ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں ۔ ایسے میں ملک کے رائے دہندوں کو اپنے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی مثال قائم کرنی چاہئے جس سے سیاسی قائدین اور جماعتوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔