ورنگل پولیس کی تحویل میں مظفر نگر کے مسلم نوجوان کی موت

امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند حلقہ تلنگانہ و اوڈیشہ حامد محمد خان کا مذمتی بیان
حیدرآباد یکم / مئی ( پریس نوٹ ) 27 اپریل 2019 کو 5 نوجوان جب وہ اپنی کپڑے کی تجارت کیلئے باہر روانہ ہو رہے تھے اس وقت حسن پرتی کے مقام سے ورنگل کی پولیس نے انہیں گرفتار کیا اور ایک نامعلوم مقام پر لے گئی اور ان کے سامان کی تلاشی لی گئی اور ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ بتائیں ۔ ان تمام نوجوانوں نے اپنے آدھار کارڈ بتلائے ۔ اس کے باوجود پھر انہیں کسی نامعلوم مقام کو لے جایا گیا اور ان کے سامان کی تلاشی لی گیء ۔ گندی زبان کا استعمال کیا گیا اور ہراساں کیا گیا ۔ اسی دوران ایک اور ٹیم نے ان کے کمرے کی تلاشی لی اور ان سے متعلق پڑوسیوں سے بھی پوچھ تاچھ کی گئی ۔ پانچ گھنٹوں تک نہ کھانا دیا گیا اور نہ پانی جب پانی طلب کیا گیا تو ایک خالی بوتل دی گئی ۔ تفتیش کے دوران محمد عبدالمنان 35 سال نے سینہ میں تکلیف کی شکایت کی اور پولیس سے گذارش کی کہ وہ اسے دواخانہ لے جائیں لیکن پولیس نے اس کی ایک بات بھی نہیں مانی ۔ پولیس کی تفتیش کے دوران محمد عبدالمنان کو دل کا دورہ آیا اس کے ساتھ یہ اسے سرکاری دواخانہ ورنگل لے گئے ڈاکٹرس نے کہا کہ اس کا انتقال ہوگیا ۔ورنگل کی پولیس دیگر نوجوانوں محمد شاہد ، محمد شہزاد اور محمد شہید کو دھمکا رہی ہے کہ باہر یہ نہ کہیں کہ محمد عبدالمنان کی موت پولیس کی تحویل میں ہوئی لیکن یہ خبر ورنگل کے مسلمانوں میں پھیلی ۔ انہوں نے سرکاری دواخانہ کے پاس جمع ہوکر احتجاج کیا اور واقعہ کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ۔ پولیس نے نولا مظفر نگر اترپردیش کے 35 سالہ نوجوان کا پوسٹ مارٹم کروایا اور لاش کو ان کے وطن روانہ کردیا ۔ امیر حلقہ مولانا حامد محمد خان نے مطالبہ کیا کہ محمد عبدالمنان کی موت کی برسر خدمت عدالت عالیہ کے جج کے ذریعہ تحقیقات کروائی جائے اور پولیس عہدیداروں کو آئی پی سی 302 کے تحت فوری گرفتار کیا جائے اور حکومت تلنگانہ 25 لاکھ روپئے معاوضہ دے ۔ امیر حلقہ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات حکومت تلنگانہ کی نیک نامی کو متاثر کرنے کی سازش کا حصہ ہیں ۔