وراثت میں مردوں کو زیادہ اور عورتوں کو کم غیرشرعی نہیں : سمیہ اردغان

برسلز۔ یکم اپریل ( سیاست ڈاٹ کام) صدر ترکی رجب طیب اردغان کی دُختر سمیہ اردغان جو ویمن اینڈ ڈیموکریسی ایسوسی ایشن کی نائب سربراہ بھی ہیں، نے آج اپنے ایک اہم خطاب کے دوران بتایا کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم یا موروثی جائیدادوں کی تقسیم میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو اگر کم اہمیت دی جاتی ہے یا ان کے حصہ میں کم جائیداد آتی ہے تو یہ بالکل نارمل بات ہے۔ برسلز میں ’’دُنیا کی مسلمان عورتوں کا موقف اور مساوات کیلئے جدوجہد‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک مرد و خواتین کی مساوات کا سوال ہے تو اس اسلامی موضوع پر دنیا میں سب سے زیادہ بحث کی جاتی ہے جہاں یہ پوچھا جاتا ہے کہ بیٹوں کے مقابلے بیٹیوں کو کم کیوں ملتا ہے؟ لیکن جب اس حقیقت کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے مرد کو حاکم بنایا اور خاندان کی کفالت اس کے ذمہ سونپی ہے جبکہ عورتوں کیلئے ایسا کوئی حکم نہیں ہے

لہٰذا مردوں کو وراثت میں زیادہ ملنا معمول کے مطابق اور حق بجانب ہے۔ مثلاً ایک شادی شدہ جوڑا (دونوں میاں بیوی) ملازمت کرسکتے ہیں تاہم اس کے باوجود بھی مرد کو اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اپنی بیوی کو دینا چاہئے جبکہ بیوی اپنی آمدنی کو خرچ کرنے کا فیصلہ خود کرسکتی ہے کہ اسے کب، کہاں اور کتنا خرچ کرنا ہے۔ ہم جب بھی خواتین کی اجارہ داری کی بات کرتے ہیں تو مغربی ممالک کی جانب دیکھتے ہیں جبکہ اسلامی ممالک اس کی بہترین مثال ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ کمانے کی ذمہ داری مرد کی ہوتی ہے اور گھر چلانے اور بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری بیوی کی ہوتی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کیلئے اسلام میں کوئی سخت قوانین نہیں ہیں۔ وہ ملازمت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے آزاد ہے اور اس کیلئے خواتین کو اپنے والد یا شوہر سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں۔