وجئے روپانی کی دوسری میعاد

گجرات میں بی جے پی کی 22 سالہ حکمرانی کے تحت ریاست کو ترقی کا ماڈل بنانے کے مسلسل ادعا جات کے درمیان وجئے روپانی کو چیف منسٹر کی حیثیت سے دوسری میعاد کا حلف دلایا گیا ۔ انتخابی کامیابی کا سہرا ان کے سر باندھتے ہوئے بی جے پی نے اپنے وفادار لیڈر کی خدمات کو جاری رکھا ہے ۔ اس ریاست میں مسلسل 6 مرتبہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی کا فرض بنتا ہے کہ روایات کو اپنے وعدہ کے مطابق ترقی کا ماڈل بنائے لیکن اپوزیشن کانگریس نے بی جے پی حکومت کی ناکامیوں کی ایک طویل فہرست تیار کر کے ہی اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کیا تھا ۔ عوام نے بھی کانگریس کی بات کو تسلیم کر کے بی جے پی کے ووٹ بینک کو کمزور کرنے میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ بی جے پی نے یہ انتخابات گجرات ریاست کو بہتر بنانے کے وعدہ کے تحت جیتا ہے ۔ بلا شبہ ان انتخابات کی کامیابی میں مرکزی حکومت خاص کر وزیراعظم نریندر مودی کی کرشماتی قیادت کا اہم رول رہا ہے لیکن ریاست گجرات کی داخلی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بی جے پی کی مرکزی قیادت کے دعوؤں کے برعکس ہے ۔ اب دوسری میعاد میں چیف منسٹر روپانی کو اپنی حکومت کے عہد کی پابندی کرنی ہے ۔ پاٹیداروں اور دلتوں کی جانب سے جن مسائل کو اٹھایا گیا اور جن موضوعات پر اعتراض کیا گیا ان پر غور کرنا نئی حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کے جذبہ کو فروغ دیا جاتا ہے تو پھر جمہوری عمل میں نفرت کو در انداز کر کے حالات ابتر بنائے جاسکتے ہیں ۔ حکومت گجرات کو ماضی کے تجربات کے بعد مستقبل کی حکمت عملی کے ذریعہ مسائل کی یکسوئی پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ گجرات میں فروغ انسانی کا مسئلہ سنگین ہے یہاں بچوں کی شرح پیدائش کو گھٹایا جارہا ہے تو خواندگی کی شرح آگے نہیں بڑھ رہی ہے اور اسکولوں میں لڑکیوں کے داخلے کی شرح بھی کم ہے ۔ بی جے پی کو گجرات کے دیہی علاقوں میں کانگریس سے سخت مسابقت کا سامنا ہوچکا ہے ۔ گجرات کے دیہی علاقے معاشی کساد بازاری کے باعث شدید بے روزگار اور معاشی پریشانیوں سے دوچار ہیں ۔ زرعی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی اور کسانوں کے قرضوں کا بوجھ تشویشناک ہے ۔ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کو 14 دیہی حلقوں میں بدترین شکست ہوئی ہے ۔ اگر چیف منسٹر وجئے روپانی اپنی پارٹی کی ساکھ کو دیہی علاقوں میں مضبوط بنانے کی فکر رکھتے ہیں تو انہیں موثر معاشرتی کام انجام دینے ہوں گے ۔ گجرات کے شہری علاقوں میں تاجر طبقہ نے بی جے پی کو جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی مار کے باوجود ووٹ دیا ہے کیوں کہ تجارت پسند لوگ بی جے پی کو اپنا مسیحا مان چکے ہیں تو بی جے پی ان کے سہارے اپنی کامیابی کے منزل طئے نہیں کرسکتی ۔ اس کے لیے دیہی علاقوں کے غریب عوام کے ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے ۔ انتخابات میں ووٹنگ فیصد سے اس کو اندازہ ہونا چاہئے کہ کانگریس اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ گجرات کو ترقی کا ماڈل بنانے کا وعدہ پورا کرنے کے ساتھ اس ریاست کو درپیش مسائل جیسے خشک سالی ، سیلاب اور مانسون کی کمی کا سامنا ہے ۔ بی جے پی سے تاجر طبقہ خوش اور کسان طبقہ ناخوش ہے اس طرح بی جے پی اپنی کامیابی میں توازن نہیں رکھتی ۔ سوراشٹرا علاقہ میں بی جے پی کو شدید دھکہ پہونچا ہے ۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کی چوتھی سب سے متمول ریاست کا درجہ رکھنے والی ریاست گجرات میں بنیادی فروغ انسانی کے امور کمزور ہیں ۔ گجرات میں صحت عامہ کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے ۔ اس لیے صدر کانگریس راہول گاندھی نے اپنی ’گجرات مانگے جواب ‘ انتخابی مہم میں وزیراعظم نریندر مودی سے یہی سوال کیا تھا کہ ریاست کے عوام بی جے پی سے 22 سال کا حساب مانگ رہے ہیں ۔ بہر حال وجئے روپانی کو ان تمام سوالات کا جواب دینا ہے اور اپنی میعاد کے دوسرے مرحلے میں نظر انداز کردہ طبقات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے خاص کر پاٹیداروں ، دلتوں اور دیگر او بی سیز طبقہ کے افراد کی بہبود کے لیے موثر اسکیمات وضع کیے جانے کی ضرورت ہے ۔۔