صالحہ عارف
ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اس حسن سلوک کی توفیق کو دونوں جہاں کی سعادت سمجھنا چاہئے۔ خدا کے بعد انسان پر سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے۔ ماں باپ کے حق کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں جگہ بہ جگہ اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ والدین کے حق کو بیان کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی شکر گزاری کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ’’اور آپ کے رب نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل۔۳۲)
قرآن پاک کے علاوہ احادیث میں بھی ماں باپ کا درجہ بتایا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ’’یارسول اللہ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘۔ اس نے کہا: ’’پھر کون؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘۔ اس نے عرض کیا: ’’پھر کون؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیرا باپ۔ پھر درجہ بہ درجہ جو تیرے قریبی لوگ ہوں‘‘۔ اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ماں کا درجہ باپ سے بڑا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ماں کی خدمت کرے اور باپ کی نہ کرے۔ ماں کے قدموں کے نیچے اگر جنت ہے تو باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔
واضح رہے کہ ماں باپ کی خدمت اس وقت اور زیادہ اہم ہو جاتی ہے، جب ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بُڑھاپے کو پہنچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو تم ان کو اُف تک نہ کہو اور نہ انھیں جھڑکیاں دو‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل۔۲۳)
مگر آج ہمارے معاشرے کی یہ حالت ہے کہ اگر ماں باپ ضعیف ہو جاتے ہیں تو ان کی خدمت خود کرنے کی بجائے اُنھیں ’’اولڈ ایج ہوم‘‘ میں لے جاکر چھوڑ دیا جاتا ہے، یعنی دوسروں سے اُن کی خدمت کروائی جاتی ہے۔ یقیناً ایسے افراد گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں، جس کی سزا اللہ تعالیٰ انھیں دنیا و آخرت دونوں جگہ دے گا۔ آخرت کی سزا تو قیامت پر موقوف ہے، لیکن دُنیا کی سزا یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ جو لوگ جیسا کرتے ہیں، اُن کی اولاد بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرتی ہے۔ یقیناً ماں باپ کی رضامندی میں اللہ کی رضامندی ہے۔