واقعہ کربلا اور مسلمان

قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
واقعہ کربلا اور مسلمان
تاریخ اسلام میں حضرت سیدنا امام حسین ابن علیؓ کی شہادت ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کا درد ہر مومن کے دل میں اٹھتا رہے گا ۔ اسلام کی سربلندی کے لیے حضرت امام حسینؓ نے یزید کی بیعت خلافت سے انکار کیا اور جام شہادت نوش فرمائی ۔ حضرت سیدنا حسین ؓ نے یزید کے ظلم سے عوام الناس کو بچانے اور دین کی سربلندی کی غرض سے کربلا کا رخ کیا تھا یہ جذبہ رہتی دنیا تک ہر مظلوم کے خلاف آواز اٹھانے کے جذبہ کی تلقین کرتا ہے ۔ جب بھی محرم الحرام کا نام آتا ہے تو فوراً تذکرہ شہدائے کربلا ؓ اور حضرت امام حسینؓ کا پاکیزہ نام دل و دماغ میں گونجنے لگتا ہے ۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت نے ضمیروں کو بیدار کیا ہے ۔ فی زمانہ بھی حضرت امام حسینؓ کی شہادت عالم اسلام کی ضمیروں کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہے مگر افسوس کہ کرہ ارض پر سانس لینے والے مسلمانوں کی اکثریت طاغوتی ظالموں کے ظلم کو برداشت کرتے ہوئے اپنے کمزور ایمان کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں ۔ ذہنی انقلاب کی راہیں ہموار کرنے والے واقعہ کربلا نے انسانی اقدار کی اہمیت کو متعارف کرایا ہے ۔ کربلا میں حضرت امام حسین ؓ اور ان کے اصحاب نے دین کو جس انداز میں بچایا اسلامی تاریخ میں ایک روشن مثال ہے ۔ ہم ہر سال واقعہ کربلا کو یاد کرتے ہیں ۔ امام حسینؓ کی شہادت پر رو اٹھتے ہیں لیکن فی زمانہ ظالم کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے جذبہ سے عاری ہیں ۔ مشرقی وسطی ہو یا ایشیائی ممالک ہر جگہ مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے والی طاقتیں دن بہ دن طاقتور ہو کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ مشرقی وسطی ، شام ، عراق ، لیبیا ، یمن ، بنگلہ دیش ، پاکستان ، افغانستان ، مانیمار اور ہندوستان کے حالیہ واقعات موجودہ مسلم دنیا کی بے بسی اور شہادت کے جذبہ سے عاری زندگی کا مظہر ہیں ۔ فلسطین میں غاصب اسرائیل اپنی بستیاں تعمیر کررہا ہے ۔ امریکہ سمیت دیگر ملکوں نے فلسطینیوں کی امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جب کہ اس فلسطینی قوم کو کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے ۔ صیہونی اور طاغوتی طاقتوں کے مکروہ اور خطرناک عزائم پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہونے کے باوجود طاقتور مسلم ممالک خاموش بت بنے ہوئے ہیں ۔ فلسطینیوں کو مسلسل پسپائی کے لیے مجبور کردیا جارہا ہے ۔ روہنگیا میں مسلمانوں کی مجرمانہ نسل کشی اور فلسطینیوں کے خلاف صیہونی ریاست کے ہاتھوں قتل عام کے باوجود مانیمار اور اسرائیل کے درمیان ناپاک معاہدے ہورہے ہیں ۔ انتہائی خطرناک ہتھیاروں کی خرید و فروخت کا معاہدہ ہوا ہے ۔ مانیمار کی مغربی مسلم اکثریت والی ریاست راکھین میں مسلمانوں کی مذہبی عصبیت کی بنیاد پر ہونے والی نسل کشی میں اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ اب اس اسرائیل سے حکومت ہند نے بھی قربت اختیار کرلی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ہر زاویہ سے پریشان کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو نقصان پہونچانا انہیں قتل کرنا عام ہوگیا ہے ۔ ہجومی تشدد کا شکار بناکر خوف زدہ کرنے کا ماحول گرم کردیا گیا ہے ۔ اب مرکزی حکومت کی کابینہ نے 3 طلاق کو روکنے کے لیے ایک آرڈیننس بھی منظور کردی ہے ۔ اس طرح کے آرڈیننس کے ذریعہ مسلمانوں کو ان کے دین سے بیزار کرنے کی سازش ہورہی ہے ۔ واقعہ کربلا کی روشنی میں اگر ہم آج کے شریعت اسلامی کا جائزہ لیں تو ہمارے اندر پائی جانے والی خامیاں سامنے آئیں گی ۔ مسلمانوں نے خود احتسابی اور تذکیہ نفس سے دوری اختیار کرلی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے اندر جذبہ شہادت اور ظالم کا منہ توڑ جواب دینے کی ہمت کافور ہوتی جارہی ہے ۔ حضرت امام حسین ؓ نے یزید کی مطلق العنان حکومت کو مسترد کردیا تھا کیا آج کے مسلمان موجودہ مطلق العنان حکومتوں کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے ۔ اگر اسلامی ممالک کے حکمراں یوں ہی معنی خیز خاموشی اختیار کرتے رہیں گے تو عالم کفر ظلم کی انتہا کرتا رہے گا اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ عالم اسلام کے طاقتور حکمراں میدان عمل میں آئیں اور مسلمانوں کو حوصلہ بخشنے والے اقدامات کریں ۔ انہیں غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام دشمن طاقتیں پسپائی کا منہ دیکھ سکیں ۔ آج تمام اسلامی ممالک کو ایک مضبوط اتحاد کی جتنی ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آج کا دن قومی معنی رکھتا ہے اس دن کی اسلامی تاریخ کی روشنی میں وہ خود کو تیار کرنے کا عہد کریں تو آنے والے دن ان کے لیے سلامتی کا پیغام لائیں گے ۔۔