رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی ایک حدیث مبارکہ ہے :
ان العلماء ورثۃ الانبیاء (علماء انبیاء کے وارث ہیں) ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تشریح فرماتے ہوئے اپنے ایک مکتوب میں بڑی چشم کشا بات لکھی ہے ، فرماتے ہیں : (واضح باد کہ ) ’’جو علم انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہے ، وہ دو قسم کا ہے ، علم الاحکام اور علم الاسرار ۔ انبیاء کا وارث کہلانے کا مستحق وہ عالم ہے جس کو دونوں قسم کے علوم سے حصہ ملا ہو ۔ یہ نہ ہو کہ فقط ایک قسم کا علم نصیب ہو ، دوسری قسم سے محروم ہو ۔ یہ بات وراثت کے منافی ہے ۔ وارث کا مورث کے تمام ترکے میں حصہ ہوتا ہے ۔یہ نہیں کہ کچھ میں حصہ ہو اور کچھ میں نہ ہو ۔ اور جس کا حصہ کسی خاص جنس تک محدود ہے وہ ( وارث نہیں) قرض خواہوں کی فہرست میں شامل ہوگا ، اس لیے کہ قرض خواہ کا حصہ صرف اس کے حق کی جنس سے متعلق ہوتا ہے‘‘۔
آپ اس کو ایک مثال سے سمجھیں ، کسی نے ایک لاکھ روپیہ نقد اور کچھ جائیداد ترکے میں چھوڑی ہے ۔ اب وارث نقد رقم میں بھی حصہ دار ہوگا اور جائیداد میں بھی ، یہ نہیں کہ نقد میں حصہ دار ہو اور جائیداد میں نہ ہو۔ یا صرف جائیداد میں حصہ دار ہو اور نقد رقم میں نہ ہو ، دونوں میں اس کا حصہ ہونا ضروری ہے۔
یہ حقیقت تو بالکل واضح ہے کہ علم احکام سے مراد شریعت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اے حبیب ؐ ! اﷲ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور آپ کو وہ کچھ بتایاہے جو آپ ﷺ کو معلوم نہ تھا اور اﷲ کا فضل آپؐ پر بہت ہے ‘‘ (نساء ۴:۱۱۳)
صوفیہ کرام کا کہنا ہے کہ حکمت سے مراد علم باطن اور علم الاسرار ہے جس کووہ طریقت اور حقیقت بھی کہتے ہیں ۔ علم الاسرار کی تعلیم رسول اکرم ﷺ نے انفرادی طورپر بعض صحابہؓ کو دی تھی ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے دو برتن بھرکر محفوظ کرلیے ہیں۔ ایک برتن تو ایسا ہے کہ اس کا مظروف میں نے پھیلادیا ہے ، عام کردیا ہے لیکن دوسرا برتن ایسا ہے کہ اگر میں اس کے مظروف کو پھیلادوں یا عام کردوں تو میرا حلقوم کٹ جائے۔ (مشکوٰۃ )
اسی طرح حضرت ابوالفر سراج رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب اللمع میں حضرت علیؓ سے ایک روایت لکھی ہے ۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ رسول اﷲ نے مجھے علم کے ستر ابواب بتلائے ہیں اور یہ علم آپؐ نے میرے سوا کسی اور کو نہیں دیا ۔
اسی طرح کی ایک اور روایت امام ترمذی نے شان الصلوٰۃ کے ضمن میں اور ابن اثیر نے اسدالغابہ میں بیان کی ہے جس کو حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کشف المحجوب میں بیان کیا ہے : حضرت حارثہؓ ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے فرمایا : حارثہ ! تم نے صبح کس حال میں کی ؟
عرض کیا : میں نے صبح اس حالت میں کی کہ میں برحق مومن تھا ۔
اس پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : حارثہ ! خوب سوچ لو تم کیا کہہ رہے ہو ، ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے ، تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟
حارثہؓ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ! میں نے اپنے نفس کو دنیا سے علحدہ کردیا جس کے نتیجہ میں میری نظر میں دنیا کے پتھر اور سونا ، چاندی اور مٹی سب برابر ہوگئے ، چنانچہ میں شب بیدار رہنے لگا اور دن کو روزے رکھنے لگا ، پھر میری یہ کیفیت ہوگئی کہ میں اﷲ تعالیٰ کے عرش کو بالکل واضح دیکھ رہا ہوں اور گویا میں اہل جنت کو آپس میں ملتے اور اہل دوزخ کو چلاتے دیکھ رہاہوں ۔
اس پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہیں معرفت حاصل ہوگئی ، اب اس پر جم جاؤ ۔
اور یہ بات آپ ﷺ نے تین مرتبہ دہرائی ۔
ان مذکورہ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ علم قال اور علم حال کی دو نہریں منبعِ علومِ نبوت ہی سے جاری ہوئی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اﷲؒ نے حجۃ اﷲ البالغہ میں حضرت حارثہؓ کی اس حدیث سے استدلال بھی کیا ہے :
حدیث جبرئیلؑ میں جس کو اُم السنّۃ بھی کہا جاتا ہے ، رسول اکرم ﷺ نے ماالاسلام ؟ ماالایمان ؟ اور ماالاحسان؟ کے جو جوابات ارشاد فرمائے ہیں ، ان میں آپؐ نے ماالاسلام ؟ کے جواب میں ارکان اسلام بیان فرمائے ہیں ماالایمان ؟کے جواب میں عقائد اور ایمانیات کا تذکرہ فرمایا اور ماالاحسان؟ کے جواب میں ان تعبداﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک ۔ مشاہدۂ حق اور مراقبہ حضوری کو بیان فرمایاہے ۔ شاہ ولی اﷲ رحمہ اﷲ اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حقیقی تصوف یہی ہے ۔