وائس چانسلر اردو یونیورسٹی کی پانچ سالہ میعاد میں کوئی کارنامہ نہیں

4‘ اہم کورسیز 2007 سے غیر مسلمہ ‘بے قاعدگیوں اوراقرباء پروری کی طویل فہرست‘ ترقی کے بجائے شخصی مقاصد کی تکمیل
حیدرآباد 5 مئی (سیاست نیوز)کسی بھی سرکاری ادارے کے سربراہ کی معیاد کی تکمیل کے موقع پر اس کے کارناموں کی تشہیرکی جاتی ہے لیکن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر اس موقف میں نہیں کہ اپنی پانچ سالہ معیاد کے کسی کام کو بطور کارنامہ پیش کرسکیں۔ وائس چانسلر کی معیاد 13 مئی کو ختم ہوجائے گی لیکن وہ اپنے کارناموں کے اظہار کے لئے میڈیا کا سامنا کرنے تیار نہیں اور نہ ہی ذمہ دار سیاسی جماعتوں کے قائدین کا جواب دینے کے موقف میںہے ۔ ظاہر ہے کہ جب پانچ سال کے دوران کوئی کارنامہ ہو تو یقینا اسے پیش کرنے کی جراء ت کی جائے گی یہاں تو پوری معیاد میں اقرباء پروری ‘قریبی افراد کے قواعد کے برخلاف تقررات اور مالیاتی بے قاعدگیوں کے الزامات سے بھری پڑی ہے ۔ یونیورسٹی کے اندرونی ذرائع خود بھی اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ موجودہ وائس چانسلرس نے پانچ برسوں کے دوران اسکامس کی نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ وائس چانسلر کے کارنامے تو نظر نہیں آرہے ہیں تاہم اُن کے دور میں کی گئی مبینہ بے قاعدگیوں کی طویل چارج شیٹ عوام کے درمیا ن ہے ۔ میڈیا میں یونیورسٹی میں جاری بد عنوانیوں کے بارے میں مسلسل انکشافات پر وائس چانسلر کی خاموشی خود اس بات کا مظہر ہے کہ وہ حقائق کا سامنا کرنے کے موقف میں نہیں۔ تقررات میں مبینہ بے قاعدگیاں ‘اقرباء پروری ‘ قواعد کے خلاف ورزی کے ذریعہ اپنے لئے ڈھال کے طور پر میڈیا اڈوائزر کا تقرر ‘ ٹی اے ڈی اے کے نام پر لاکھوں روپئے کا خرچ اور حقائق کا اظہار کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں موجودہ وائس چانسلر کے کارناموں کی حیثیت سے یاد کئے جائیں گے ۔ کوئی بھی وائس چانسلر یونیورسٹی کے معیار کو بلند کرنے اور اس کی ترقی پر توجہ مبذول کرتا ہے لیکن آئندہ ہفتہ سبکدوش ہونے والے وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے ایک بھی کورس کو دوبارہ مسلمہ حیثیت دلانے کی کوشش تک نہیں کی ۔ 2007 سے گریجویشن کے چار کورسس بی اے ‘بی کام اور بی ایس سی اور ایم اے ہسٹری غیر مسلمہ ہیں اور گذشتہ دو برسوں سے یونیورسٹی نے ان کورسیز میں داخلہ کیلئے اعلامیہ جاری نہیں کیا ۔ موجودہ وائس چانسلر 2010 سے عہدہ پر فائز رہے لیکن پانچ برسوں میں انہوں نے کورسیز کو مسلمہ حیثیت دلانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ اس طرح 2007 سے یونیورسٹی ایسے ہزاروں طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ کررہی ہے جو غیر مسلمہ کورسیز میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کورسیز کی ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اس طرح یونیورسٹی کو ترقی کے بجائے مزید تباہی کے راستہ پر گامزن کردیا گیا ۔ ایسی یونیورسٹی طلبہ کے کس کام کی جس کے کورسیز یوجی سی میں مسلمہ نہیں ہے ۔ اس طرح اردو یونیورسٹی بھی بہار اور اتر پردیش میں موجود گھریلو اور فرضی یونیورسٹیز کی فہرست میں شامل ہوچکی ہے۔ یونیورسٹی نے حیدرآباد ‘ بنگلور اور دربھنگہ میں پالی ٹکنکس قائم کئے لیکن اُن کے کورسیز بھی ابھی تک مسلمہ حیثیت حاصل نہیں کرسکے ۔ پالی ٹیکنکس میں بظاہر ذریعہ تعلیم اردو ظاہر کیا جارہا ہے لیکن جب کورسیز کی مسلمہ نہ ہو تو ان اداروں کے قیام کا کیا فائدہ ۔ بتایا جاتا ہے کہ 25 اپریل کو منعقدہ ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس میں وائس چانسلر کی مرضی کے مطابق فیصلوں کو منظوری دی گئی ۔ اس اجلاس میں کسی بیرونی رکن نے شرکت نہیں کی اور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کے ذریعہ وائس چانسلر نے کئی اہم فیصلے کئے ہیں ۔ ہر یونیورسٹی میں ایگزیکٹیو کونسل اجلاس کے روئیداد برسر عام کی جاتی ہے لیکن اردو یونیورسٹی نے آج تک کونسل کے اجلاس کی تفصیلات پیش نہیں کیں ۔ یونیورسٹی کے ایک ذمہ دار نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ بیرونی ارکان کی عدم شرکت کے باعث ایگزیکٹیو کونسل کا اجلاس ( ای سی میٹنگ) وائس چانسلر کے اجلاس (وی سی میٹنگ) میں تبدیل ہوگئی ۔ وائس چانسلر کی معیاد کے خاتمے کو صرف سات دن باقی ہیں اور وائس چانسلر نے پانچ سالہ معیاد اس طرح مکمل کی جس طرح کوئی حکومت اپنی معیاد مکمل کرتی ہے ۔ حکومت پر نگرانی کیلئے مشنری موجود ہیں لیکن اردو یونیورسٹی کی نگرانی کرنے والے بتایا جاتا ہے کہ موجودہ صورتحال سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔