کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت تھی ۔ وہ بہت بڑا سخی اور بہادر تھا اور علم و فن کا بھی بڑا قدرداں تھا ۔ اس کے وزراء انتہائی تعلیم یافتہ ، دانا اور بردبار تھے ۔ ان میں ایک وزیر بہت ہی دانا ، عقلمند اور متقی تھا ۔ تمام وزراء اس وزیر سے بہت حسد کرتے تھے ۔ ایک دن کسی حاسد کو ایک بات معلوم ہوگئی ۔
اس نے بادشاہ کو یہ بات بتانے میں دیر نہیں کی ۔ وہ بادشاہ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ’ عالیجاہ ! آپ تو وزیر پر نوازش فرماتے رہتے ہیں اور وہ آپ کی زندگی کے خاتمہ کیلئے کوشاں رہتا ہے ۔ وہ لوگوں کو اس شرط پر قرض دیتا ہے کہ جب بادشاہ کا انتقال ہوجائے گا ۔ میری رقم مجھے لوٹا دینا ۔ چنانچہ بہت سارے فوجی اس شرط پر اس سے قرض لے چکے ہیں ۔ حاسد کی یہ بات سن کر بادشاہ غصہ میں آگیا اور وزیر کو حاضر ہونے کا حکم دیا ۔ جب وزیر پہنچا تو بادشاہ نے کہا ’’ تم کیسے آدمی ہو ، جس کا نمک کھاتے ہو اسی کی موت کیلئے دعاء کرتے ہو؟ تم لوگوں کو اس شرط پر قرض دیتے ہوکہ ہماری موت کے بعد یہ رقوم وصول کرو گے ۔ وزیر نے عرض کیا ’’ بادشاہ سلامت جو کچھ اس نے بتایا وہ سچ ضرور ہے لیکن ایسا کرنے سے غلام کا مقصد بادشاہ سلامت کی بدخواہی نہیں بلکہ خیر خواہی ہے ۔ وہ کیسے ؟ بادشاہ نے پوچھا ۔ وزیر نے کہا لوگ قرض نہ لوٹانے کیلئے دن رات آپ کی عمر درازی کیلئے دعائیں کریں گے اور ان کی دعاؤں کے طفیل میں اللہ آپ کی عمر دراز کرے گا تاکہ ان لوگوں کو قرض لوٹانے کیلئے طویل وقت مل جائے ۔ وزیر کی بات سن کر بادشاہ خوش ہوا اور اپنے اس لائق وزیر کو ترقی دیتے ہوئے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز کردیا ۔ بادشاہ کی جانب سے احکام کی اجرائی کے بعد حاسدین آگ بگولہ ہوگئے ۔