نیکی کی نیا انداز…!!

میاں محسن ہیں تو آپ دس گیارہ ہی سال کے ، لیکن کبھی کبھی بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ ایک دن اپنی امّی سے بولے:’’ امّی جان! ہم نے تو اللہ میاں کے بینک میں اپنا حساب کھول لیا ہے۔ آپ جو ہر ہفتے مجھے جیب خرچ دیتی ہیں، اسی میں سے کچھ نہ کچھ بچاکر بینک میں جمع کردیتا ہوں۔‘‘ امّی جان یہ سُن کر مسکرادیں، بولیں ’’ تو بھئی یہ روپیہ تم کو ملے گا کب؟ ‘‘ ’’ قیامت کے دن ایک ایک کے بدلے سات سات سو تک ملے گا! کچھ سُنا آپ نے، اور اگر اللہ نے چاہا تو اس کا بھی دونا۔‘‘ ’’ اچھا بھئی یہ تو بتاؤ، یہ بینک ہے کہاں ؟ تم کس جگہ روپیہ جمع کرتے ہو؟‘‘ ’’ امّی جان ! ہمارے پڑوس میں جو ایک اپاہج آدمی رہتا ہے، بس اُس کو آپ اللہ میاں کے بینک کا کلرک سمجھیں۔ میں تو اُسے ہی دے آتا ہوں۔ جو کچھ اُسے پہنچ گیا، بس جانو بینک میں جمع ہوگیا۔‘‘ محسن میاں کی باتیں سُن کر امّی جان بہت خوش ہوئیں۔ سوچنے لگیں کہ محسن نے کیا پتے کی بات کہی ہے۔ سچھ مُچ ہم جس غریب ، یا فقیر کو اللہ کے لیے کچھ دیتے ہیں، اس پر کوئی احسان نہیں کرتے ہیں۔ اسے تو اللہ میاں نے ایک ذریعہ بنادیا ہے۔