نیپال میں نئے دستور پر اختلافات میں شدت

کٹھمنڈو 26 ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) نیپال کے سابق وزیر اعظم اور اعلی ماؤیسٹ لیڈر بابو رام بھٹا رائے نے آْ پارلیمنٹ کی رکنیت اور پارٹی سے بھی استعفی پیش کردیا ہے ۔ اب وہ خود اپنی نئی سیاسی جماعت تشکیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے نیپال کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نئے دستور کے مسئلہ پر اختلافات کے دوران یہ فیصلہ کیا ہے ۔ بابو رام بھٹا رائے متحدہ سی پی این ماؤیسٹ کیس ینئر لیڈر ہیں۔ وہ پارٹی کے سربراہ پشپا کمل داہل عرف پراچندہ کے بعد سب سے سینئر لیڈر ہیں۔ بھٹا رائے کے ہندوستان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں کیونکہ وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ وہ مادھیسی پارٹیوں کی جانبس ے شروع کردہ احتجاج کے حامی سمجھے جاتے ہیں ۔ ان جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ نیپال کے جنوبی میدانی علاقوں میں رہنے والے عوام کو موثر نمائندگی دی جانی چاہئے ۔ بابو رام بھٹا رائے نے ایسے ارکان پارلیمنٹ پر مسلسل تنقید کی ہے جنہوں نے دستور سازی کے عمل کے دوران اقلیتوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی ہے اور ان کو نظر انداز کیا ہے ۔اس معاملہ میں بھٹا رائے نے خود اپنی پارٹی کے ایم پیز کو بھی نشانہ بنایا ہے ۔ نیپال میں منتخبہ عوامی نمائندوں نے پہلی مرتبہ دستور تیار کیا ہے ۔
61 سالہ بھٹا چرائے نے پارلیمنٹ اور اپنی پارٹی کی رکنیت سے استعفی پیش کرنے کے بعد اشارہ دیا ہے کہ وہ آئندہ دو ایک مہینوں میں خود اپنی نئی سیاسی جماعت قائم کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کی تاریخ سے وہ تمام ذمہ داریوں اور فرائض سے سبکدوش ہوگئے ہیں اور اب وہ اپنی پارٹی کی رکنیت سے بھی سبکدوش ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ ملک کے عام شہری کی حیثیت میں جوکچھ کرسکتے ہیںکرینگے ۔