نیپال میں زلزلہ … درس و عبرت

اﷲ سبحانہ و تعالیٰ خالق کائنات ہے، وہی فاعل حقیقی ، متصرف بالذات ہے ، کائنات کی ہر شئی اُسی کے حکم کے تابع ہے ، کوئی طاقت و قوت اس کے بالمقابل نہیں ، وہ تنہا ہے ، قادر مطلق ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی قدرت کے سامنے سرنگوں ہے ، جس نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان کو پیدا کیا ، مختلف سیارے بنائے ، نت نئے عجیب الخلقت محیرالعقول مخلوقات بنائے، آسمان کو چاند و سورج کی روشنی اور چمکتے دمکتے ستاروں سے روشن و منور کیا ، زمین پر مختلف رنگ و نوع کے پھول کے باغات بسائے اس کی تہہ میں انواع و اقسام کے مادے ودیعت کئے ۔ کائنات کی ہر شئی ایک نظام کے تحت سرگرداں ہے ، چاند و سورج روشن ستارے اپنے حدود و بروج میں گشت کرتے ہیں ۔ کوئی اپنے متعینہ سسٹم ونظام سے تجاوز نہیں کرتا گویا کہ کائنات کی ہر شئی ہمہ تن سپرد ہے ، سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے ، سرمو کوئی کوتاہی نہیں ، مجسمہ طاعت و بندگی ہے ، اس کا نام اسلام ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کے حکم و مرضی کے سامنے اپنے آپ کو سپرد کردینا اس لئے کائنات کی ہر شئی ’’مسلمان ‘‘ ہے ۔ یعنی فرمانبردار ہے ، سراپا تسلیم و رضا ہے ۔ ان تمام میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اس کے سر پر فضیلت کا تاج رکھا ، اس کو مخدوم بنایا ، ساری کائنات کو اس کے تابع کیا ، اﷲ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں انسان کو اپنی محبت و خلافت کے لئے منتخب فرمایا ، اس کو عقل و دانش ، فہم و ادراک ، قلب و جگر ، سوز دروں ، فائیت و فنائیت سے متصف فرمایا ، اپنے صفات و تجلیات کو اخذ و جذب کرنے کا اہل بنایا ، انسان کو اپنی ’’خودی ‘‘ سے واقف کرانے کیلئے اﷲ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا ، ان کیلئے ضابطہ زندگی کو نازل فرمایا ۔ ایک آفاقی پیغام کے ساتھ ایک عالمگیر نبی آخرالزماں کو مبعوث فرمایا جو مہر نبوت بنکر آئے ۔ دنیا کو خدا کے وجود کا سراغ بتایا اور ایک قوم کو فریضۂ دعوت و تبلیغ کے لئے تیار فرمایا جنھوں نے اپنی مفوضہ ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی ، یہ فریضۂ دعوت و تبلیغ آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی گئی تاآنکہ یہ گراں ذمہ داری اُمت کے موجودہ افراد پر آپہنچی ۔ کیا ہم اس بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس کے حقیقی خالق و مالک سے جوڑنے کیلئے کسی قسم کی کوشش کررہے ہیں؟
کیا ہم اپنے نبی کے آفاقی مشن کا حصہ بن رہے ہیں ؟

کبھی ہمیں انسانیت کی بھلائی اور ان کو آخرت کے عذاب سے بچانے کیلئے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنے کا خیال آیا؟
جب مسلمان کسی آفت سماوی ، آندھی ، طوفان یا زلزلے کا شکار ہوتے ہیں تو ہم ان کو شہید سمجھ کر اپنی زندگیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور بلاشبہ کسی مسلمان کا کسی آفت سماوی میں شکار ہوکر اس دارفانی کو چھوڑدینا اخروی اعتبار سے اس کے حق میں ہی ہوگا ۔ نیز جب کوئی غیرقوم زلزلے کا شکار ہوجائے تو ہم کہیں گے ظلم و زیادتی ، کفر و شرک ، ناانصافی ، بے حیائی کی وجہ سے عذاب الٰہی کا شکار ہوئے ۔ بلاشبہ جب اﷲ کے حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے تو اس کی گرفت ہوتی ہے ۔ لیکن ہمیں شخصی طورپر یہ غور کرنا چاہئے کہ ہمارے لئے اس میں کیا عبرت ہے ؟

یہ زلزلے ، یہ طوفان ، یہ سونامی ، یہ آفات سماوی خدا کی قدرت کی نشاندہی کرتی ہیں جس کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو اپنی عاجزی و بے بسی کا احساس ہوتا ہے ۔
حدیث شریف کے مطابق قرب قیامت یہ حوادث و آفات سماوی گاہے بہ گاہے پیش آتے رہیں گے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں ، خواب غفلت سے بیدار ہوں ، اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں ، جو لوگ منکرخدا ہیں اُن کو غور و فکر کا موقعہ ملے۔ کل قیامت کے دن یہ کفار و مشرکین اﷲ تعالیٰ کے دربار میں عذر پیش نہیں کرسکیں گے کہ ہم تک تیرا پیغام نہیں پہنچا ، اگر ہم کو حقیقی پیغام پہنچتا تو ہم ضرور ایمان لے آتے ۔ ان آفات سماوی و حوادث زمانہ کے بعد کفار و مشرکین منکرین خدا کیلئے کوئی عذر بھی باقی نہیں رہتا ۔ اس کے ساتھ ہم اُمت اسلامیہ کو یہ درس ہے کہ ہم اس بھٹکی ہوئی انسانیت کو خدا تک پہنچانے کے لئے کمرہمت کس لیں۔ غیرقوم کو اسلام کی روشنی سے منور کرنے اور ان کو قیامت کے دائمی عذاب سے بچانے کیلئے فکرمند و کوشاں ہوں۔

نیپال میں قیامت خیز زلزلہ آیا ، آنِ واحد میں نقشہ بدل گیا ، تاریخی عمارتیں زمین دوس ہوگئیں ، ہزاروں لوگ لقمۂ اجل ہوگئے ، ہزاروں زخمی ہیں ، موت و زیست کی کشمکش میں ہیں ، آبادیاں ویران ہوگئیں ، روشن شہر تاریکی میں غرق ہوگیا ، جابجا تباہی کے خوفناک مناظر ہیں، ساری دنیا اس مصیبت میں نیپال کا ساتھ دے رہی ہے ۔ دنیا کی بڑی طاقتیں مغربی ممالک ، مسلم ممالک عیسائی ، یہودی اور اسلامی و سماجی تنظیمیں نیپال کے متاثرین کے لئے امداد فراہم کررہے ہیں ، عالمی تجارتی کمپنیاں ممکنہ تعاون پیش کررہی ہیں ۔
مختلف ممالک سے خصوصی فورسس بھیجی جارہی ہیں میڈیکل ٹیمیں روانہ ہورہی ہیں غذائی اجناس کے کئی سو ٹن نیپال پہنچ رہے ہیں ، بنیادی ضروریات کے ساز و سامان فراہم کئے جارہے ہیں ، اقوام متحدہ کے مختلف شعبے سرگرم ہیں ، اس کے باوجود راحت کاری میں دقتیں ہورہی ہیں ، ادنی سی ایک زمین کی حرکت کے لئے ساری دنیا ایک ہونے کے باوجود پریشان ہے ۔

کبھی ہم نے اس پہلو پر بھی غور کیا کہ نیپال کفر و شرک کا مرکز ہے ، ۸۱ فیصد آبادی ہندو ہے ۔ ہر طرف منادر ہیں ، اگرچہ ۲۰۰۷ ء میں باضابطہ جمہوریت کا اعلان ہوا لیکن ہندوازم کے مذہبی قوانین کا آئینی حکومت پر اثرات ہیں۔ ۴اعشاریہ۴ فیصد مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی معاشی و تعلیمی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے ، ۹۵ فصید سے زائد مسلمان غربت کا شکار ہیں ۔ مذہبی منافرت سے پریشان ہیں ، عیسائیت و بدھ ازم کی سرگرمیوں بناء ہندو آبادی ۸۹ فیصد سے ۸۱ فیصد ہوگئی ۔ اتنا قدیم و کثیر آبادی والا ملک ، اسلام کی روشنی سے محروم ہے ۔ لیکن عیسائیت اور بدھ مذہب کو قبول کررہے ہیں۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام ٹھپ ہے ، کسی زمانے میں بھی مسلمان بادشاہوں نے اس ملک کو فتح نہیں کیا۔ کشمیر اور عرب کے تاجرین تجارت کے لئے پہنچے اور سکونت پذیر ہوگئے ۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے عائلی ، معاشرتی اور مسلکی اختلافات و نزاعات سے بالاتر ہوکر اسلام کے آفاقی پیغام اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے عالمگیر مشن کو عام کرنے کیلئے جدوجہد نہ کریں؟