نیپال میں زلزلہ کے تازہ جھٹکے ‘مہلوکین کی تعداد 7 ہزار سے متجاوز

کٹھمنڈو 2 مئی ( سیاست ڈاٹ کام ) نیپال میں آج زلزلہ کے تازہ جھٹکے محسوس کئے گئے جس کے نتیجہ میں زمین اور مٹی کے تودے کھسکنے کے واقعات پیش آئے ۔ گذشتہ ہفتے کو آئے ہلاکت خیز زلزلہ میں مہلوکین کی تعداد سرکاری طور پر 7,000 سے متجاوز ہوگئی ہے ۔ علاوہ ازیں زلزلہ متاثرین اب احتجاج پر اتر آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر ریلیف اور بازآبادکاری کے کام بہت سست رفتار ہیں۔ کئی مقامات تک ابھی تک کوئی مدد نہیں پہونچی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ گورکھا ضلع میں بارپک علاقہ میں آج 5.1 شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا ۔ یہ وہی علاقہ ہے جو گذشتہ ہلاکت خیز زلزلہ کا مبتداء رہا تھا ۔ کہا گیا ہے کہ آج آئے زلزلہ کے جھٹکے اور مابعد جھٹکو کے نتیجہ میں ایک خاتون زخمی ہوگئی ۔ آج کے جھٹکوں سے بھی عوام میں خوف و دہشت کی لہر دوڑ گئی ۔ زلزلہ کے دوسرے مابعد جھٹکے کے نتیجہ میں زمین کھسکنے کے واقعات پیش آئے جن کے نتیجہ میں پہلے ہی سے پریشان حال افراد کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ۔ ابھی تک بیشتر افراد کھلے میدانوں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ایک پولیس عہدیدار نے بتایا کہ دولال گھٹ کے مقام پر سندوپل چوک اور کاؤرے ضلع کے درمیان والے علاقہ میں زمین کھسکنے کا واقعہ پیش آیا ۔ تاہم اس میں کسی طرح کے جانی نقصان یا کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی ہے ۔ ہفتے کے اس زلزلہ میں جو گذشتہ 80 سال میں نیپال کی تاریخ کا سب سے تباہ کن زلزلہ رہا مہلوکین کی تعداد 7,000 تک پہونچ گئی ہے ۔ وزارت داخلہ کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈویژن نے یہ بات بتائی اور کہا کہ مہلوکین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔ کئی مقامات پر ابھی تک منہدمہ عمارتوں اور گھروں کے ملبہ سے نعشیں نکالنے کا کام چل رہا ہے ۔ نیپالی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ارانیکو ہائی وے پر ٹاٹوپنی علاقہ میں شاہراہ پر 16 نعشیں دستیاب ہوئی ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ زمین کھسکنے اور مٹی کے تودے گرنے کے واقعات میں کچھ بیرونی باشندے بھی زندہ دفن ہوگئے ہوں۔

اب جبکہ زلزلہ کو ایک ہفتہ ہوگیا ہے وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اب ملبہ میں کسی کے زندہ بچے رہنیکی امید ختم ہوگئی ہے ۔ سرکاری حکام کی جانب سے ریلیف کے کاموں میں تاخیر اور سست روی کا الزام عائد کرتے ہوئے متاثرین اب احتجاج پر اتر آئے ہیں۔ برہم افراد کا کہنا ہے کہ ان کیلئے آنے والی ریلیف اشیا کو بلیک مارکٹ میں فروخت کیا جارہا ہے اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ وادی کٹھمنڈو کے کئی علاقوں میں اب تک درکار غذائی اشیا پہونچ نہیں پائی ہیں جس کے نتیجہ میں لوگ اب حکام کے خلاف نعرے مار رہے ہیںاور احتجاج پر اتر آئے ہیں۔ احتجاج میں حصہ لینے والے ایک فرد نرمل بشی نے بتایا کہ جو غذائی اشیا 20 روپئے میں دستیاب ہوا کرتی تھیں اب وہ 50 روپئے تک پہونچ گئی ہیں۔ ریلیف اشیا اور امداد کی تقسیم میں کسی طرح کی شفافیت نہیں ہے ۔ ایک بے گھر شخص جو اپنے 10 افراد خاندان کے ساتھ بے یار و مددگار بیٹھا تھا اس نے بتایا کہ اسے اب تک صرف پانی کا ایک بوتل دستیاب ہوسکا ہے ۔ کئی علاقوں میں ٹارپولین کے شیڈس بھی نہیں پہونچے ہیں۔ مقامی افراد نے الزام عائد کیا کہ ریلیف اور امدادی اشیا صرف با اثر افراد تک پہونچ رہی ہیں اور غریب اور معمولی حیثیت کے نیپالی عوام ہنوز کسی امداد اور راحت سے محروم ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ یومیہ اجرت پر زندگی بسر کرنے والوں کیلئے حالات اور بھی مشکل ہوگئے ہیں اور حکومت انہیں کسی طرح کی راحت اور امداد پہونچانے میں ناکام رہی ہے ۔ اس دوران بیرون سیاحوں بشمول ڈنمارک، اسرائیل کے علاوہ کینیڈا کے تقریباً ایک ہزار شہری نیپال کے مختلف حصوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ زلزلہ کے ایک ہفتہ بعد بھی انہیں اپنے ملک واپس جانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

ہندوستان کی امداد پر نیپالی بائیں بازو کو شکوک
کٹھمنڈو 2 مئی ( سیاست ڈا ٹ کام ) زلزلہ سے متاثر نیپال میں اپوزیشن بائیں بازو کی جماعتوں نے زلزلہ کے بعد نیپال میں بیرونی اقوام بشمول ہندوستان کی راحت رسانی سرگرمیوں کو نیپال کی قومی سلامتی و سکیوریٹی کیلئے خطرہ قرار دیا ہے اور وزیر اعظم سشیل کوئرالا کو احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے ۔ وزیر اعظم کے طلب کردہ کل جماعتی اجلاس میں یو سی پی ایم ماؤیسٹ کے سربراہ پراچندہ ‘ سی پی این ماؤیسٹ کے صدرنشین موہن بدیہ اور نیپال مزدور کسان پارٹی کے سربراہ نارائا مان بیجوکچے نے خبردار کیا ہے کہ ریلیف و امداد کے نام پر بیرونی مداخلت سے قومی سلامتی کو خطرہ درپیش ہوسکتا ہے ۔ ان تمام جماعتوں کے قائدین نے مسٹر سشیل کوئرالا کو مشورہ دیا کہ وہ اس سلسلہ میں کافی احتیاط سے کام لیں۔