ماسکو ۔ 03 ستمبر ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) روس نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک بڑا ’خطرہ‘ قرار دیا ہے۔ ماسکو حکام کا یہ بیان نیٹو کی جانب سے مشرقی یورپ کیلئے ایک سریع الحرکت فوج قائم کرنے کے منصوبے کا ردِ عمل ہے۔ روس کی قومی سلامتی کونسل کے نائب سیکرٹری میخائل پوپوف کے مطابق مشرقی یورپ میں سریع الحرکت فورس کے قیام کیلئے نیٹو کا منصوبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے رہنما روس کے ساتھ کشیدگی کی پالیسی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ نیٹو کے ارکان کی جانب سے روس کی سرحدوں کے جانب عسکری انفراسٹرکچر کھڑا کرنے کے سوال پر روس کو درپیش غیر ملکی عسکری خطرے کے طور پر غور کیا جائے گا۔ روس نے 2010ء میں ایک عسکری نظریہ جاری کیا تھا
جس کے تحت کسی انتہائی خطرے کی صورت میں ایٹمی ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ پوپوف کا کہنا تھا کہ یہ دستاویز نیٹو اور اس کے نئے میزائل شکن دفاعی نظام کا سامنا کرنے پر زیادہ توجہ دے گی۔ مغربی ممالک یوکرائن میں جاری بحران کیلئے روس کے کردار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روس یوکرائن کو جنگ کے دہانے پر لے گیا ہے۔ اس تناظر میں ماسکو حکومت کی جانب سے اپنے عسکری نظریے میں ڈرامائی تبدیلی قابلِ تشویش ہے، جو ایسے وقت سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے جمعرات کو ویلز میں نیٹو کا سربراہی اجلاس منعقد ہورہا ہے۔
نیٹو کی اس نشست کے موقع پر یوکرائن کے صدر پیٹرو پورو شینکو اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما کو عسکری حمایت کے حصول کیلئے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اجلاس سے قبل اوباما اسٹونیا کا دورہ کریں گے اور اس موقع پر سابق سوویت یونین سے علیحدہ ہونے والے نیٹو کے نئے ارکان کیلئے حمایت پر مبنی پیغام جاری کریں گے۔ خیال رہے کہ گزشتہ دِنوں امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے ڈیموکریٹ سربراہ رابرٹ مینینڈیز نے کہا تھا کہ روس کے ’براہ راست حملے‘ سے تحفظ کیلئے یوکرائن کو ہتھیار فراہم کیے جانے چاہئیں۔ ری پبلکن سینیٹر جان مکین نے بھی سینیٹر مینینڈیز کے اس مؤقف کی حمایت کی تھی۔ یوکرائن نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ روس نواز باغیوں کے ساتھ جھڑپوں میں اس کے پندرہ فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ اْدھر پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اس لڑائی کے نتیجے میں 2600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پانچ لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے ہیں۔