مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: ’’النوم اخت الموت‘‘نیند موت کی بہن ہے۔ نیند اور موت میں بڑی مماثلت ہے، انسان سوتا ہے، پتہ نہیں کہ وہ اپنی خوابگاہ سے بیدار ہوگا یا نہیں چونکہ ہر دن کے بعد رات آتی ہے، کچھ سونے والے اللہ کے حکم سے ابدی نیند کی آغوش میں پہنچ جانے کی وجہ ہمیشہ ہمیشہ سوتے رہ جاتے ہیں اور جن کی ابدی نیند یعنی موت کا وقت نہیں آتاوہ دوبارہ نیند سے بیدار ہوکرزندگی کی مہلت عمل پاتے ہیں، ہر سونے والا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ دوبارہ اپنی خوابگاہ سے بیدار اٹھ سکے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا ہے انہیں ان کی نیند کے وقت، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتاہے اور دوسری (روحوں) کوایک مقررہ مدت تک کیلئے چھوڑ دیتا ہے، غوروفکر کرنے والوں کیلئے اس میں یقینا بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔(الزمر؍۴۲)
روحوں کا قبض کرلینا اور نیند کی حالت کے باوجود ان کی روحوں کو نیند میں قبض کئے بغیر دوبارہ واپس بھیج دینا یہ سب کا سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بے پناہ قدرت میں ہے۔
رات کے حصہ میں سوجانا بھی گویا موت سے بڑی مشابہت رکھتا ہے، فرق یہ ہے کہ نیند کی حالت میں روح کی صلاحیتوں کو بڑی حد تک وقتی وعارضی طور پر بظاہر سلب کرلیاجاتا ہے جس کی وجہ بدنی محسوسات اور ارادہ و اختیار کا تعلق روح سے کمزور پڑجاتا ہے، اسلئے زندگی کے بعض احساسات سے وہ محروم ہوجاتا ہے البتہ نظام تنفس نیند کی حالت میں بحال رہتا ہے جس کی وجہ بدنی تعلق باطنی طور پر روح سے قائم رہتا ہے جو زندگی کی علامت ہے، نیند کی حالت میں بسااوقات عالم دنیا سے اس کا تعلق منقطع کرکے عالم مثال سے جوڑ دیاجاتا ہے جس کی وجہ عالم مثال میں اس کی روح سیر کرتی ہے، اس روحانی ترقی کی وجہ اس حالت میں انسان جو خواب دیکھتا ہے وہ عام طور پر سچے ہوتے ہیں، ان کو رؤیاء صادقہ سے تعبیر کیاجاتا ہے، عالم مثال سے اگر روح کا سفر بدن کی طرف ہورہا ہو تو اس تنز ل کی وجہ شیطانی تصرفات کا اس میں دخل ہوجاتا ہے جس کی وجہ اس وقت دیکھے جانے والے خواب عام طور پر سچے نہیں ہوتے۔ نیند کی حالت سے جب انسانی روح بدن کی طرف لوٹائی جاتی ہے تو پلک جھپکنے کی دیر نہیں لگتی کہ یہ مرحلہ طئے ہوجاتا ہے۔ جبکہ موت کی حالت میں یہ صلاحیتیں پوری طرح ہمیشہ کیلئے سلب کرلی جاتی ہیں، ارشاد باری ہے: ’’اور وہ ذات ہی وہ ہے جو رات تمہاری روح کو قبض کرلیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو وہ جانتا ہے پھر تم کو نیند سے بیدار کردیتا ہے تاکہ زندگی کی مقررہ گھڑیاں پوری کی جائیں پھر تم کو اسی کی طرف جانا ہے، وہی تم کو بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے اور وہی اپنے بندوں پر برتر اور غالب ہے، تم پر حفاظت کرنے والے فرشتوں کو بھیجتا ہے- یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچتا ہے تو اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے‘‘۔(الانعام؍۶۰،۶۱)
اس آیت پاک میں نیند کو موت سے مشابہ بتایاگیا ہے، فرق یہ ہے کہ نیند چھوٹی موت کے ہم معنی ہے تو موت حقیقی معنی میں موت ہونے کی وجہ بڑی موت سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔ رات سوتے ہوئے اللہ کے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ذکر کا اہتمام فرمایا ہے اور امت کو جس کی تلقین کی ہے اس میں بڑی معنی آفرینی ہے:
باسمک ربی وضعت جنبی وبک ارفعہ ان امسکت نفسی فارحمہاوان ارسلتہا فاحفظہا بما تحفظ بہ عبادک الصالحین
پروردگار عالم! میں اپنا پہلو تیرے نام سے فرش پر رکھتا ہوںاور تیرے نام کے ساتھ ہی اس کو اٹھاپاؤنگا، اس دوران اگر تو میری روح کو قبض کرلے تو اس پر رحم فرما، اور اگر تو اس کو واپس لوٹا دے تو اس کی ایسی حفاظت فرما جیسی حفاظت تو اپنے نیک بندو ں کی فرماتا ہے۔
وقتی نیند اور ابدی نیند یعنی موت دونوں کے درمیان بڑی مماثلت ہے، سوتے ہوئے بھی ایک انسان دنیا جہاں سے بے خبر ہوجاتا ہے، اس پر غوروفکر کیا جائے تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ نیند کا معاملہ گویا بیداری اور موت کے درمیانی حالت جیسا ہے، اسلئے سونے سے پہلے اللہ سبحانہ کو یاد کرنے، اپنے گناہوں سے مغفرت چاہنے کی بڑی اہمیت ہے، اگر نیند کی حالت میں موت آجائے تو اللہ کے دربار میں روحانی پاکی اور نورِایمانی کے تحفظ کیساتھ پہنچنے گی ان شاء اللہ ضمانت حاصل ہوجائے گی۔