حیدرآباد ۔ 25 ۔ جون : نیلوفر چلڈرنس ہاسپٹل تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے ان مشہور و معروف ہاسپٹلوں میں سرفہرست ہے جہاں بچوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔ 1953 میں زچہ اور بچہ دونوں کی بہتر صحت کو یقینی بنانے کے مقصد سے قائم کئے گئے اس ہاسپٹل میں عصری طبی آلات ہونے کے باوجود ڈاکٹروں کے رویہ سے مریضوں میں کافی برہمی پائی جاتی ہے ۔ بعض مریضوں نے شکایت کی ہے کہ ڈاکٹرس کی ڈیوٹی 8-30 بجے شروع ہوجاتی ہے لیکن 10 بجے تک بھی ڈاکٹرس ہاسپٹل نہیں پہنچ پاتے ۔ نتیجہ میں دور دراز مقامات سے آنے والے مریضوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ واضح رہے کہ شہزادی نیلوفر سے موسوم دواخانہ ابتداء میں 100 بستروں پر مشتمل تھا لیکن اب اس دواخانہ میں بستروں کی تعداد 500 تک پہنچ گئی ہے ۔ اس کے باوجود مریض بچوں کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماں باپ بستر نہ ملنے پر اپنے مریض نومولودوں کو لیے ہاسپٹل کے باہر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ اکثر و بیشتر یہ ہاسپٹل خبروں میں رہتا ہے کبھی نومولودوں کی اموات کے سلسلہ میں تو کبھی صفائی کے ناقص انتظامات اور کبھی ڈاکٹروں کے غیر پیشہ وارانہ طرز عمل کے باعث مئی 2013 میں نیلوفر ہاسپٹل میں صرف 7 یوم کے دوران 93 نومولود فوت ہوئے تھے جن میں سے 63 (NNICU) انٹرنیٹل کیر یونٹ میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے ۔ اس وقت ریاستی حقوق انسانی کمیشن کے عہدہ داروں نے اچانک دورہ کرتے ہوئے ڈاکٹروں کی غفلت کو بے نقاب کیا تھا ۔
اس مرتبہ مریض بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی باری کے لیے الصبح دواخانہ پہنچنا پڑتا ہے ۔ ایسے میں نومولود اور شیر خوار بچوں کو اپنے گود میں لیے گھنٹوں ٹہرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ نیلوفر چلڈرنس ہاسپٹل سے پڑوسی ریاست کرناٹک اور مہاراشٹرا کے مریض بھی رجوع ہوتے ہیں ۔ مریضوں کی یہ بھی شکایت ہے کہ عملہ مریضوں کے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا ۔ ان حالات میں ڈپٹی چیف منسٹر و وزیر صحت مسٹر راجیہ کو چاہئے کہ وہ اچانک نیلوفر ہاسپٹل کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ ڈاکٹرس وقت پر آتے ہیں یا نہیں ۔ بہر حال حیدرآباد میں خواتین و اطفال کے اس ہاسپٹل کو اس کے بانی کی عین خواہش کے مطابق غریبوں کی خدمت کا ذریعہ بنانے کے لیے ضروری اقدامات کئے جانے چاہئے ۔ ویسے بھی تمام سرکاری ہاسپٹلوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔۔