رشیدالدین
حیدرآباد ۔ 31 ۔ ڈسمبر ۔ سال 2013 ء متحدہ آندھراپردیش کی تاریخ کا آخری سفر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ مرکزی حکومت کے فیصلہ کے مطابق آندھراپردیش کی جغرافیائی تقسیم 2014 ء میں یقینی ہوگی۔ اس طرح متحدہ آندھراپردیش میں 2014 نئے سال کے استقبال کا آخری جشن ہوگا اور نئی ریاست تلنگانہ میں 2015 ء کا استقبال کیا جائے گا ۔ مرکز کے منصوبہ کے مطابق اگر ساری کارروائی اطمینان بخش انداز سے مکمل ہوجائے تو امکان ہے کہ 2014 ء کے عام انتخابات سے قبل ہی تلنگانہ ریاست وجود میں آجائے گی اور متحدہ ریاست کے 58 سالہ تاریخ کا باب ختم ہوجائے گا ۔ آندھراپردیش ملک کی پہلی ریاست تھی جسے یکم نومبر 1956 لسانی بنیادوں پر تشکیل دیا گیا اور اس میں سابق آندھرا ریاست اور حیدرآباد اسٹیٹ کے علاقوں کو شامل کرتے ہوئے نئی ریاست تشکیل دی گئی ۔ 1953 ء میں آندھرا ریاست کو اس وقت کی مدراس پریذیڈینسی سے علحدہ کرتے ہوئے کرنول اس کا دارالحکومت مقرر کیا گیا ۔
بعد میں آندھرا اور حیدرآباد اسٹیٹ کے تلگو بولنے والے عوام کیلئے ایک ریاست کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 1956 ء کے آندھراپردیش کا جنم ہوا۔ 1953 ء میں ہی حیدرآباد اسٹیٹ کے علاقوں کو آندھرا اسٹیٹ کے ساتھ ضم کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور حیدرآباد اسٹیٹ کے چیف منسٹر بی رام کرشنا راؤ نے کانگریس ہائی کمان کی اس تجویز کی تائید کی جبکہ تلنگانہ علاقہ سے اس کی مخالفت کی جارہی تھی ۔ انضمام کی تجویز قبول کرتے ہوئے آندھرا اسٹیٹ اسمبلی میں 25 نومبر 1955 ء کو قرارداد منظور کرتے ہوئے تلنگانہ کے مفادات کی تکمیل کا وعدہ کیا گیا۔ 20 فروری 1956 ء کو تلنگانہ اور آندھرا قائدین کے درمیان انضمام کا معاہدہ کیا گیا اور تلنگانہ کے مفادات کے تحفظ کے وعدے کئے گئے۔ اس سلسلہ میں دونوں علاقوں کے چیف منسٹر بی گوپال ریڈی اور بی رام کرشنا راؤ کے درمیان بھی معاہدہ پر دستخط کئے گئے۔ حیدرآباد اسٹیٹ کے دارالحکومت شہر حیدرآباد کو ریاست آندھراپردیش کا دارالحکومت مقرر کیا گیا۔ آندھراپردیش کی تشکیل کے 13 برسوں تک سارے معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہے تھے۔ تاہم 1969 ء میں تلنگانہ علاقہ میں علحدگی کی تحریک شروع ہوئی۔ تلنگانہ عوام نے شریفانہ معاہدے اور دیگر وعدوں کی تکمیل میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے علحدہ ریاست کی مانگ کی ۔ اس وقت کے صف اول کے رہنما ڈاکٹر ایم چنا ریڈی نے تلنگانہ پرجا سمیتی قائم کرتے ہوئے تحریک کی قیادت کی۔اسی دوران علحدہ تلنگانہ کی تحریک شدت اختیار کرلی اور تشدد میں 350 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 1972 ء میں آندھرا اور رائلسیما علاقوں میں جئے آندھرا تحریک کا آغاز ہوا جو تلنگانہ تحریک کے جواب میں شروع کی گئی تھی ۔ سرکردہ قائدین جیسے کے وینکٹ رتنم ، ٹی وشوانادھم اور گوتو لچنا نے جئے آندھرا تحریک کی قیادت کی ۔ بی جے پی کے موجودہ سینئر قائد ایم وینکیا نائیڈو نے بھی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ 21 ستمبر 1973 ء کو مرکزی حکومت کے ساتھ معاہدہ کے ذریعہ 6 نکاتی فارمولہ کو تقویت دی گئی جس میں دونوں علاقوں سے مساوی انصاف کی بات کی گئی۔ دونوں علاقوں کے قائدین نے مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی ایجی ٹیشن کو روکنے سے بھی اتفاق کیا۔ قانونی مسائل سے بچنے کے لئے دستور میں 32 ویں ترمیم کے ذریعہ 6 نکاتی فارمولہ کو قانون موقف دیا گیا ۔
اس کے بعد ہی آندھراپردیش میں امن بحال ہوا اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا ۔ 1999 ء تک بھی کسی بھی علاقہ سے تقسیم کی مانگ نہیں کی گئی ۔ تاہم 1999 ء میں اس وقت کے قائد اپوزیشن وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے علحدہ تلنگانہ کی تحریک کو ہوا دی اور تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے کانگریس ارکان اسمبلی کو علحدہ تلنگانہ کی تشکیل کے حق میں کانگریس ہائی کمان کو مکتوب روانہ کرنے کی تائید کی ۔ تلنگانہ تحریک میں اس وقت ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جب کے چندر شیکھر راؤ نے تلگو دیشم پارٹی نے علحدگی اختیار کرتے ہوئے 27 اپریل 2001 ء کو تلنگانہ راشٹرا سمیتی قائم کی۔ ٹی آر ایس کے قیام کے بعد سے علحدہ تلنگانہ تحریک نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ تاہم 2009 ء میں اس وقت دوبارہ شدت پیدا ہوگئی جب چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ کے حصول کیلئے مرن برت کا آغاز کردیا ۔ اکتوبر 2008 ء میں تحریک کو اس وقت تقویت حاصل ہوئی جب تلگو دیشم پارٹی نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے ریاست کی تقسیم کی تائید کی ۔ حالانکہ تلگو دیشم کا یہ فیصلہ دونوں علاقوں میں پارٹی مفادات کی تکمیل کے لئے ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ ٹی آر ایس نے 2009 ء میں تلگو دیشم کے ساتھ انتخابی مفاہمت کی جس سے علحدہ ریاست کی تحریک کو کسی قدر دھکا لگا۔ ستمبر 2009 ء میں اس وقت کے چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں اچانک موت کے بعد ٹی آر ایس اور تلنگانہ تحریک کو نئی طاقت ملی ۔ 29 نومبر کو کے سی آر نے مرن برت کا آغاز کیا اور سارے تلنگانہ میں پرتشدد احتجاج شروع ہوگئے جس کے دباؤ میں مرکز نے 9 ڈسمبر 2009 ء کو تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی سیما آندھرا علاقوں میں جوابی ایجی ٹیشن کا آغاز ہوا اور عوامی نمائندوں نے اجتماعی طور پر اپنے استعفے پیش کردیئے ۔ اس صورتحال سے پریشان مرکزی حکومت نے 23 ڈسمبر 2009 ء کو تشکیل تلنگانہ کا عمل روکنے کا اعلان کیا۔
مرکز کی جانب سے اعلان سے انحراف کے بعد تلنگانہ تحریک نے زبردست شدت اختیار کرلی اور آخر کار کانگریس ورکنگ کمیٹی اور یو پی اے رابطہ کمیٹی نے 30 جولائی 2013 ء کو علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا فیصلہ کرلیا ۔ اس کے بعد مرکزی کابینہ نے بھی ریاست کی تقسیم کی تجویز کو منظوری دیدی ہے۔ تلنگانہ مسودہ بل صدر جمہوریہ کی جانب سے اسمبلی کی رائے حاصل کرنے کیلئے روانہ کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ 3 جنوری سے شروع ہونے والے اسمبلی اجلاس میں اس پر مباحث ہوں گے۔ صدر جمہوریہ مسودہ بل کو ضروری ترمیمات کی تجویز کے ساتھ دوبارہ مرکزی حکومت کو روانہ کریں گے جہاں بل کو قطعیت دی جائے گی اور پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ مرکز کے سخت گیر موقف کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ 2014 ء میں ملک کی 29 ویں ریاست تلنگانہ قائم ہوجائے گی۔