نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے حملوں سے انسانیت شرمسار

مسجد اقصی اور اسلامی آثار مٹانے کی گہری سازش،محبوب نگر میں احتجاجی جلسہ سے سفیر فلسطین اور صدر انڈو عرب لیگ کا خطاب

محبوب نگر 3 اگست (سیاست نیوز)فلسطین پر اسرائیل کے جارحانہ حملے،انسانیت کو شرمسار کردینے والے مظالم کا مقصد ایک ہی ہیکہ فلسطین کے وجود کو ختم کردیا جائے لیکن ظالم اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی ناپاک طاغوتی طاقتوں کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ فلسطینی مسلمان نہ مٹنے والے ہیں اور ان کی مزاحمتی قوت ٹوٹنے والی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار ہز اکسیلنسی جناب عدلی شبان حسن صادق سفیر فلسطین برائے دہلی نے مستقر محبوب نگر کے ٹاون ہال میدان میں کل شب ایک بڑے جلسہ عام کو مخاطب کرتے ہوئے کیا ۔ یہ جلسہ انڈو عرب لیگ کے زیر اہتمام اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاج درج کرانے کیلئے منعقد کیاگیاتھا۔ جلسہ کی صدارت جناب سید وقار الدین چیر مین انڈو عرب لیگ و ایڈیٹر روزنامہ رہنمائے دکن نے کی ۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے سفیر فلسطین نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ ایک یکطرفہ جنگ ہے جو زبردستی نہتے فلسطینیوں پر مسلط کردی گئی ہے ۔ فلسطینیوں کی قوت مزاحمت کو ختم کرنا اور شہر القدس میں مسجد اقصی اور اسلامی آثار کو مٹانا اس جنگ کے مقاصد میں شامل ہے۔ آج ہم 48 ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں دائر کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ سفیر فلسطین نے کہا کہ اسرائیلی حملوں کا کوئی جواز ہی نہیں ہے ۔ ایک انفرادی واقعہ کو بہانہ بناگیا جن تین یہودی قابضین کا اغواء کیاگیا تھا کسی بھی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔ اغواء کنندوں نے ان کو قتل کیا لیکن کوئی نہیں جانتے کہ وہ لوگ کون تھے لیکن درندہ صفت وحشی اسرائیل نے اس کا جو بدلہ لیا وہ ہر انسان کے رونگٹے کھڑا کرنے کیلئے کافی ہے ۔ دوران خطاب سفیر فلسطین جذبات سے مغلوب ہوگئے اور بتایا کہ ایک 16 سالہ فلسطینی روزہ دار لڑکے کو شہید کردیا گیا اور شہید بھی کیسے کیا گیا کہ اس معصوم لڑکے کو پٹرول پلایا گیا اور پھر اس کو آگ لگادی جس سے وہ معصوم روزہ دار مکمل جھلس کر شہید ہوگیا ۔ اس لڑکے کا قصور کیا تھا وہ کسی عسکری تنظیم سے وابستہ نہیں تھا ۔ غیر مسلح تھا۔ اسکول کا طالب علم تھا جس کے بعد پرامن فلسطینیوں کی معمولی مزاحمت کو بہانہ بناتے ہوئے جنگ تھوپ دی گئی ۔ 17 جولائی سے اسرائیل نے قیامت برپا کردی نہ ضعیف نہ جوان نہ بچے نہ خواتین اسرائیل کے بمباری طیاروں نے اندھا دھند بم برسائے اور چند منٹوں کے اندر کئی خاندان اجڑ گئے۔
ایکطرف ملبہ سے لاشیں نکالی جارہی تھیں تو ایمبولنس سائرن بجاتے ہوئے زخمیوں کو دواخانہ منتقل کررہے تھے تو کئی زخمی وقفہ وقفہ سے دواخانوں میں جام شہادت نوش کررہے تھے ۔ کئی ماوں کی گود اجڑ گئی ،کئی خواتین آن کی آن میں بیوہ ہوگئیں، کئی بچے یتیم ہوگئے ۔عید الفطر کا دن جہاں سارے عالم کے مسلمان نئے کپڑوں میں ملبوس تھے فلسطین کے مسلمان کفن میں لپٹے جارہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اپنے والدین کے ہاتھوں دفنائے جارہے تھے اور ان کی بند آنکھیں سوال کررہی تھیں کہ آخر کس قصور میں ان کی زندگیاں چھین لی گئیں ۔ سفیر فلسطین نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف مغربی ممالک اپنی اصلیت ظاہر کرچکے ہیں لیکن اطراف کے عرب ممالک بھی اپنے آنکھوں پر مسلک کی عینک لگائے مسلمانوں کی خونریزی کو دیکھ رہے ہیں ۔ یہ وہ خونریزی و قتل غارت گری کی انتہاء تھی جسے دیکھ کر اقوام متحدہ کے ترجمان بے اختیار رو پڑے ۔ ایک ہی خاندان کے دس دس اور 18 افراد ایک ساتھ شہید ہورہے ہیں ۔ صرف 2 منٹ قبل فلسطینیوں کو گھر خالی کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے اور گھر خالی کرنے سے قبل ان کے پورے خاندان کو شہید کردیا جاتا ہے ان نہتوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ 24 دن سے مسلسل بمباری میں 1700 افراد شہید ہوئے جن میں سے نصف تعداد 18 سال سے کم عمروں کی ہے ۔ 10 سال سے غزہ شہر محصور ہے چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں ہے ۔ آج اسرائیل کے حامی ممالک مجبور ہوچکے ہیں کہ اسرائیل کو بین الاقوامی جنگی عدالت میں کھینچا جائے ۔ سفیر فلسطین جو بار بار آبدیدہ ہوتے جارہے تھے کہا کہ فلسطینیوں کے بچوں اور خواتین کو قتل کر کے اسرائیل فلسطینیوں کے حوصلے پست کرنا چاہتا ہے لیکن فلسطینیوں نے آخر کار طئے کرلیا ہیکہ وہ بغیر مزاحمت والی زندگی کے مقابل مزاحمت کرتے ہوئے شہادت کا درجہ حاصل کریں گے ۔ سفیر فلسطین نے ہند۔ فلسطین کے قدیم دوستانہ تعلقات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 1954 میں وزیر اعظم ہند جواہر لال نہرو نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا انکار کردیاتھا اور اس کی چار مضبوط وجوہات بتائی تھیں۔ 1 ۔اسرائیل۔ یہودی مملکت ہے جو مذہب کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے ۔ 2 ۔ اسرائیل نا جائز طور پر فلسطین پر قابض ہے اور اصل سرزمین کے باشندوں کو نکال باہر کررہا ہے۔ 3 ۔ اسرائیل استعماری طاقتوں کا آلہ کار ہے جس کا ہندوستان بھی شکار ہوچکا ہے ۔ 4 ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے جو ہندووں کے ساتھ ملک کر رہتی ہے ہم ان کی دل آزاری نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت اپنے قدیم فلسطینی تعلقات کو ملحوظ رکھے اور اس پر قائم رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ جہاں بعض مغربی ممالک اسرائیل کیلئے دروازے بند کررہے ہیں وہیں مشرقی ممالک اس کیلئے نئے دراوزے نہ کھولدیں۔سفیر فلسطین نے کہا کہ آخر کار اسرائیل کو اس کے گناہوں کی سزاء مل کررہے گی جس کے بعد ہز اکسیلنسی ڈاکٹر معاذن المسعودی چیف آف لیگ آف عرب اسٹیٹ مشن دلی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہند۔ فلسطین تعلقات کافی قدیم اور دوستانہ ہیں۔ ہندوستان نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کی ہے۔ ہندوستان ہمارا اسٹرائیٹیجک پارٹنر ہے۔ آج دنیا میں فلسطین ہی وہ بڑی قوم ہے جو مزاحمت کی نشانہ بن چکی ہے ۔ انسانی حقوق کمیشن اور اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہیکہ اسرائیلی جنگی جرائم کو ریکارڈکیا جائے گا اس تعلق سے ہم ہندوستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے حق میں ووٹ دیا ۔ اسرائیل کے دردناک حملوں میں محلے کے محلے اور خاندان ختم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے دردناک واقعہ سنایا جس سے سامعین بھی غمگین ہوگئے کہ عید الفطر کے دن معصوم بچے عید منارہے تھے میدان میں کھیل رہے تھے کہ اسرائیل طیاروں نے بمباری کر کے ان 10 معصوموں کو شہید کردیا جبکہ بمباری کا کوئی جواز نہ تھا انہوں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ و دیگر ممالک پر سخت دباو بناتے ہوئے اس خونریزی کو رکوائیں۔ تقاریر کے دوران سامعین اور نوجوان فلسطین زندہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے ۔ جناب سید وقار الدین قادری نے کہا کہ 1967 کی جنگ اور مسجداقصی پر اسرائیل کے قبضہ کے وقت سے ہم مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ گاندھی ،نہرو اور پٹیل مسلمان نہیں تھے لیکن ان کی انسانیت دوستی سے آج بھی ہندوستان کا احترام کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے سونیا اور منموہن سنگھ کے دور کو اس سلسلہ میں بدترین دور قرار دیا اور کہا کہ ہندوستان سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور ہم جمہوری طریقہ سے اپنا احتجاج درج کرواسکتے ہیں ۔ جناب سید وقار الدین جو صدارتی خطاب کررہے تھے کہا کہ مسجد اقصی اور اسلامی آثار کو مٹانے کی سازش ہم سب کیلئے بڑا چیلنج ہے ۔ یہودی محب وطن نہیں ہیں 1948 میں ایک لاکھ چار ہزار یہودی یہاں تھے قیام اسرائیل کے بعد ایک لاکھ ملک چھوڑ کر اسرائیل چلے گئے ۔ انہو ںنے کہا کہ آج جہاد فرض ہوچکا ہے اور آج ایک اور صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے ۔ انہو ںنے اعلان کیا کہ نومبر میں حیدرآباد انٹر نیشنل کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں سارے عالم اسلام کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا ۔ ایرلا نرسمہا سکریٹری ضلع سی پی آئی نے کہا کہ یاسر عرفات گاندھی جی کی طرح امن کے پیامبر تھے اور ساری زندگی فلسطینیوں کو حقوق دلانے میں لگادی ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت دوسری جنگ عظیم کے بعد کی سب سے بڑی بربریت ہے ۔ بلا جواز بمباری کر کے معصوموں، خواتین اور دودھ پیتے بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے دینا شرمسار ہورہی ہے ۔ انہوں نے حکومت سے فوری حرکت میں آنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ظلم پر خاموشی بھی جرم ہے ۔ ٹاون ہال میدان تقریبا بھر گیاتھا ۔وقفہ وقفہ سے نعرہ تکبیر کی گونج اور چاروں طرف پلے کارڈس نظر آرہے تھے ۔ گرومورتی سکریٹری ضلع سی پی ایم نے کہا کہ جنگ میدانوں میں لڑی جاتی ہے لیکن مکانات ،اسکولس ،دواخانوں پر بمباری اور معصوموں کو ختم کرنا یہ بڑی بزدلی ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ کمیونسٹ جماعتیں اس کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ محمد رفیق احمد قادری نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور کاروائی چلائی ۔ اس کے علاوہ مقامی قائدین محمد امین الدین قادری ،شیخ شجاعت علی ،تقی حسین تقی ،مرزا قدوس بیگ ،محمد ذکی ،مظہر الزماں صدیقی ،محسن خان ،رادھا امر صدر نشین بلدیہ ایس جگدیشور ریڈی ایم سی بابر شیخ محسن خان نے بھی مخاطب کیا ۔آخر میں حافظ محمد فیض الدین نے دعا کی اور خالد زبیدی کے شکریہ پر جلسہ اختتام کو پہونچا ۔