چیف منسٹر مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں چاہتے، قاضیوں کیلئے 9 بجے کی کوئی شرط نہیں
حیدرآباد۔ 25 جنوری (سیاست نیوز) ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے کہا کہ حکومت کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی اور نکاح ایک خالص مذہبی رسم ہے لہٰذا اس کی تکمیل کے لیے حکومت کی جانب سے وقت کی حد مقرر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت کے حق میں نہیں۔ چیف منسٹر ایک سکیولر قائد ہیں اور عوام انہیں ملک میں پانچواں گاندھی قرار دیتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود ان کا اولین مقصد ہے۔ تلنگانہ جدوجہد کا مقصد عوام کو ناانصافیوں سے نجات دلانا تھا اور تلنگانہ کی تشکیل کے بعد کے سی آر نے تمام طبقات کی ہمہ جہتی ترقی کو اپنا نصب العین بنایا۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ میں جس طرح گنگا جمنی تہذیب اور باہمی مذہبی رواداری کا جو ماحول ہے اس کی مثال ملک کی کوئی اور ریاست پیش نہیں کرسکتی۔ انہوں نے صدرنشین وقف بورڈ کی جانب سے طلب کردہ اجلاس میں رات 12 بجے کی حد مقرر کرنے سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نکاح کے وقت کے سلسلہ میں حکومت نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے اور ہر کوئی اپنی سہولت کے ساتھ نکاح کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ محمود علی نے کہا کہ جہاں تک مسلمانوں میں اسلام معاشرہ کا سوال ہے، تاخیر سے تقاریب کے انعقاد کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے کیوں کہ اس سے معاشرتی زندگی کے معموملات متاثر ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رات دیر گئے تک کھانے کے انتظامات جاری رہنے سے عوام کی صحت متاثر ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ جاگنے سے بچوں کی تعلیم اور ملازمتوں کو جانے والے افراد کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس سلسلہ میں عوام سے اپیل کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی تقاریب جلد تکمیل کریں۔ محمود علی نے کہا کہ نکاح کے لیے حکومت کی جانب سے وقت مقرر کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ جس کو جیسی سہولت ہو وہ اس طرح نکاح منعقد کرسکتا ہے۔ حالیہ عرصہ تک بھی شادی کی تقاریب صبح منعقد کی جاتی تھیں اور اب شادیاں شام میں ہورہی ہیں۔ صبح میں مصروفیت میں اضافہ کے سبب شام میں اہتمام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب کم ہوچکا ہے اور تجارت میں مصروف افراد کو تجارت کی تکمیل کے بعد تقاریب میں پہنچنے میں تاخیر ہورہی ہے لہٰذا تقاریب میں دیری عام ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نکاح کی تقاریب 12 بجے ختم کرنے اور قاضیوں کو 9 بجے تک نکاح پڑھانے جیسی ہدایات حکومت کی جانب سے جاری کرنے کا کوئی امکان نہیں اور چیف منسٹر سکیولر قائد ہیں اور وہ کسی مذہبی معاملہ میں مداخلت نہیں چاہتے۔ محمود علی نے کہا کہ وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ تقاریب جلد ختم کی جائیں تاکہ صبح بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ قاضیوں کو بھی پابند کیا جائے گا کہ وہ 8 یا 9 بجے بہرصورت نکاح کے انعقاد کے سلسلہ میں مسلمانوں کو پابند کرنے کی کوشش نہ کریں کیوں کہ حکومت کی جانب سے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وقف بورڈ صدرنشین کے اجلاس کے فیصلوں سے کسی کی دل شکنی ہوئی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ تقاریب کو جلد مکمل کریں۔