انتخابات کے آخری مرحلے ہیں۔ بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے بہرحال اپنے اصل مقصد کی جانب قدم اٹھانے کا اشارہ دیدیا ہے۔ کانگریس کے سیکولر قائدین اور یو پی کی بہوجن سماج پارٹی لیڈر مایاوتی نے مودی کے سیاسی ارادوں پر تنقید کی ہے۔ سیاسی اغراض کی خاطر ذات پات کا کارڈ استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے مگر مودی جہاں جارہے ہیں وہاں کی مقامی سیاست کا اندازہ کرکے اپنا ذہن تبدیل کررہے ہیں۔ یوپی ریاست میں چونکہ ذات پات کا مسئلہ اہم ہے اس لئے کانگریس کی انتخابی مہم جو پرینکا گاندھی کے ’’نیچی راج نیتی‘‘ ریمارک کو پسماندہ طبقات سے مربوط کرنے کی کوشش کی۔ دراصل نیچی درجہ کی راج نیتی کا مطلب گھٹیا سیاست ہوتا ہے۔ الفاظ کا کھیل کھیلتے ہوئے مودی نے نیچلی راج نیتی کو نیچی ذاتی کے لوگوں سے تعبیر کیا جبکہ مایاوتی نے اس ریمارک کے حوالے سے مودی کو ’’حقیر حرکتیں‘‘ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ وہ ہمیشہ پسماندہ طبقات اور اقلتیوں کے خلاف کام کرتی آرہی ہے۔
بی جے پی اس ملک کی افلاطون نہیں ہے کہ وہ اکیلے ہی حکومت بنا کر راج کرے گی۔ حکومت چلانے کی صلاحیتوں سے محروم بی جے پی اور اس کے قائدین کو قومی سطح کی سیاست کا بخوبی اندازہ ہے۔ ماضی میں این ڈی اے کے تلخ تجربہ کے باوجود وہ اس مرتبہ خود کو آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہے تو ملک کا مستقبل ایک تخت مشق کے حامل سیاستدانوں کے ہاتھوں میں زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکے گا۔ بی جے پی میں جو قائدین عقل کی بات کرتے ہیں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جن میں سے اب بیشتر پارٹی سے دور ہوگئے ہیں۔ نریندر مودی خود کو اپنی لیڈروں کی صف میں شمار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ہرگز ممکن نہیں ہے۔ کانگریس نے پرینکا گاندھی کو انتخابی مہم میں مصروف رکھ کر مودی کو جیسے کو تیسا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے بعض موقعوں پر مودی کو بھی پرینکا کے اثر سے پریشان دیکھا گیا ہے۔ جب مودی نے پرینکا گاندھی کو بیٹی کہہ دیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میں راجیو گاندھی کی بیٹی ہوں جنہوں نے ملک کیلئے جان قربان کردی تھی۔ میں کسی قاتل کی بیٹی نہیں ہوسکتی۔ انتخابی مہم کے دوران مرکزی سیاست کی مینا کو آرام سے تھام لینے کا خواب اتنا آسان دکھائی نہیں دیا تو اب وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے لگے ہیں۔ رائے دہندوں نے دیکھ لیا اور سمجھ لیا ہے کہ قومی سیاست کے حامل سیاستدانوں کا فقدان ہے۔
یو پی میں مودی نے خود کو پسماندہ طبقات کا فرد کہہ دیا ہے۔ جہاں دلت لیڈر مایاوتی کو سخت ناگوار گذرا۔ اگر مودی پسماندہ طبقات کے فرد ہیں تو انہوں نے اپنی ذات کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ انتخابی مہم میں سیاسی وسیع الفراقی کا مظاہرہ کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اب تک کسی بھی بڑے امیدوار نے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مودی کو ہی یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اگر انہیں ناکامی ہوئی تو وہ چائے والا ہیں چائے بیچیں گے۔ وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھنے والے امیدوار گھڑی میں خود کو چائے والا کہتے ہیں تو کبھی ملک کا چوکیدار بننے کی آرزو ظاہر کرتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ کا حامل لیڈر جلیل القدر اور کثیرالوجود والے ملک کی باگ ڈور کس طرح سنبھالے گا یہ غور طلب ہے۔ مذہبی جذبات میں بہا کر چند رائے دہندوں کو پرجوش بنانا آسان ہے تو ملک کی بڑی آبادی کو بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ کچھ دن حکمرانی کے خواب پورے کرلینے سے کامیاب قیادت کی تعریف میں شمار نہیں ہوتا۔ ہندوستان کا سیکولرازم اپنی جگہ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ سیکولرازم گھریلو دستکاری نہیں۔ سیکولرازم جعلی ادویات یا جعلی شیمپو بھی نہیں کہ گلی محلے میں اس کا کارخانہ لگایا جاسکے اور فرقہ پرستی کی بھٹی میں پگھلا کر اسے اپنے مقصد کیلئے استعمال کرسکے۔ جیسا کہ سابق چیف منسٹر مغربی بنگال اور سی پی آئی ایم کے پولیٹ بیورو رکن بدھادیب بھٹاچارجی نے کہا کہ نریندر مودی کا آئندہ وزیراعظم بن جانا تباہ کن ہوگا کیونکہ آر ایس ایس کا ایک نکاتی ایجنڈہ یہ ہے کہ اس ملک میں صرف ہندو ہی رہیں۔ ایک اور کمیونسٹ لیڈر ڈی راجہ کی یہ بات بھی غور طلب ہیکہ ہندوستانی مسلمان مودی سے نفرت کرتے ہیں۔ ڈرتے نہیں۔ بہرحال 16 مئی کے بعد ملک کے حالات امید کرتے ہیں کہ زیادہ خوفناک نہیں ہوں گے۔