نوکر کا علاج

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک امیر آدمی اپنے ساتھیوں اور نوکروں چاکروں کے ساتھ کشتی میں بیٹھا دریا کی سیر کررہا تھا۔ شیخ سعدیؒ بھی ساتھ تھے۔ موسم ہوا، اچھا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ کشتی میں بیٹھے ہوئے سب لوگ بہت خوش تھے مگر امیر کے ایک نوکر نے ان سب کی خوشی کا ناس کررکھا تھا۔
اس دن سے پہلے وہ کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا، اس لئے ڈر کے مارے چیخیں ماررہا تھا۔ اس کے چیخنے چلانے کی وجہ سے سب لوگ پریشان تھے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کو کیسے خاموش کرایا جائے۔ یہ دیکھ کر شیخ سعدیؒ نے امیر سے کہا : ’’ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس نوکر کا علاج کروں ؟ ‘‘۔ امیر نے اجازت دے دی۔ اس پر شیخ سعدیؒ نے امیر کے دوسرے نوکروں سے کہا ’’ اسے اُٹھاکر دریا میں پھینک دو۔‘‘ نوکروں نے جھٹ اس نوکر کو اُٹھاکر دریا میں پھینک دیا۔ وہ غوطے کھانے لگا اور شیخ سعدی ؒ خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ جب وہ کئی غوطے کھا چکا تو شیخ سعدیؒ نے نوکروں کو حکم دیا ’’ اب اسے پانی میں سے باہر نکالو ۔‘‘نوکروں نے جھٹ اسے باہر نکال لیا ۔ امیر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اب وہ نوکر چیخنے چلانے کے بجائے چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا ہے۔ اس نے شیخ سعدیؒ سے پوچھا : ’’ شیخ صاحب! آپ کی ترکیب تو خوب رہی لیکن ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ علاج کیا تھا؟‘‘ شیخ سعدیؒ نے جواب دیا ’’ جناب ! بات یہ تھی کہ یہ شخص پہلے کبھی کشتی میں سوار نہیں ہوا تھا۔ اس نے پہلی دفعہ دریا دیکھا تھا اس لئے ڈر رہا تھا۔ میں نے اس کو دریا میں اس لئے ڈلوادیا تا کہ اس کا ڈر دور ہوجائے۔ دیکھ لیجئے دوچار غوطے کھانے کے بعد اس کا ڈر جاتا رہا اور اب یہ چپ چاپ بیٹھا ہے۔‘‘امیر، شیخ سعدیؒ کی اس دانائی پر بہت خوش ہوا۔