نوٹ بندی کا ایک سال ‘ عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہونچا

وزیراعظم مثبت نتائج بتانے سے قاصر ‘ آربی آئی محض منسوخ شدہ نوٹوں کی گنتی میں مصروف
حیدرآباد۔29اکٹوبر (سیاست نیوز) کرنسی تنسیخ کا عمل ہوئے ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے لیکن کرنسی تنسیخ کے فوائد کے متعلق حکومت اب تک عوام کو کوئی مثبت پہلو بتانے سے قاصر ہے جبکہ ریزرو بینک آف انڈیا ابھی تک بینک کاری نظام میں واپس آنے والی کرنسی کا جائزہ لینے اور گنتی میں مصروف ہے۔ گذشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی نے8نومبر کو رات 8بجے رات قوم سے خطاب کرتے ہوئے 1000 اور 500روپئے کے کرنسی نوٹ کو منسوخ کرنے کے اعلان کے ساتھ اس بات کا ادعا کیا تھا کہ ملک میں نقد کرنسی نوٹ کالے دھن کی صورت میں جمع ہے اور اسے باہر لایا جانا ضروری ہے اسی طرح دہشت گرد اور ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے والوں نے جعلی کرنسی نوٹ مارکٹ میں چلا رکھے ہیں جس کا خاتمہ کرنا بے انتہاء ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے اس خطاب کے دوران کہا کہ رات 12 بجے سے 1000 اور 500کے کرنسی نوٹ کاغذ کے ٹکڑے کے مانند ہوجائیں گے اس اعلان کے فوری بعد ملک بھر کے عوام میں بے چینی کی لہر پیدا ہوگئی تھی کئی ماہ تک اس کے اثرات دیکھے جاتے رہے اور ملک کے کئی شعبوں پر اب تک بھی کرنسی تنسیخ کے اثرات برقرار ہیں لیکن کرنسی تنسیخ کا فائدہ بتانے سے حکومت اب بھی قاصر ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے اپنی تیسری سہ ماہی رپورٹ کے دوران اس بات کا انکشاف کیا کہ جس وقت کرنسی تنسیخ کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت 1000 اور 500 کے جملہ 15لاکھ 44ہزار کروڑ کے کرنسی نوٹ بازار میں موجود تھے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مدت کے دوران 15لاکھ 28 ہزار کروڑ واپس بینک کا ری نظام میں واپس ہو چکے ہیں جو کہ 99فیصد کے قریب واپس معاشی نظام میں پہنچنے کے مترادف ہے۔ رپورٹ کے مطابق جملہ کرنسی رقومات میں موجود 16ہزار 50 کروڑ روپئے واپس بینک کاری نظام میں واپس نہیں آسکے ہیں جو کہ جملہ نقد کا ایک فیصد ہوتا ہے۔ حکومت نے اس کے فوری بعد 2000کے علاوہ 500 کے نئے نوٹ کی اجرائی کا اعلان کیا اور 7ہزار 965کروڑ کے خرچ سے 2000 اور 500 کے نئے کرنسی نوٹ شائع کرتے ہوئے انہیں بازار میں لایا گیا جبکہ سال 2015-16کے دوران ریزرو بینک آف انڈیا نے 3ہزار421کروڑ کے اخراجات سے 1000 اور 500کے نئے کرنسی نوٹ شائع کئے تھے لیکن کرنسی تنسیخ کے بعد جاری کئے جانے والے کرنسی نوٹوں پر آر بی کو 7ہزار 965 کروڑ روپئے خرچ کرنے پڑے لیکن اس کے باوجود ملک کی معیشت کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ مرکزی حکومت نے تاحال اس فیصلہ سے پیدا ہونے والی دگرگوں صورتحال اور عوامی صبر کے کیا ثمر آور نتائج برآمد ہوئے بتا نہیں پا رہی ہے۔ ماہرین معاشیا ت کا کہناہے کہ کرنسی تنسیخ کے فوری فوائد میں صرف آن لائن خریداری کے رجحان میں کچھ حد تک اضافہ دیکھا گیا لیکن کوئی ثمر آور نتائج برآمد نہیں ہو پائے ہیں اور اب اس فیصلہ کو ہوئے ایک سال مکمل ہونے جا رہا ہے جبکہ وزیر اعظم نے 50 دن کی مہلت طلب کی تھی اور ادعا کیا تھا کہ حالات تیزی سے معمول پر آتے چلے جائیں گے۔جس وقت کرنسی تنسیخ کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت بازار میں 1716.5 کروڑ 500کے نوٹ بازار میں ہوا کرتے تھے اور 685.8 کروڑ 1000کے کرنسی نوٹ بازار میں موجود تھے۔