نوٹ بندی ‘ حکومت کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے

ایک سال کے عرصہ میں بھی حکومت کالے دھن کا پتہ چلانے میں پوری طرح ناکام
حیدرآباد /3 نومبر ( سیاست نیوز ) کالادھن کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کا دعوی کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی تمام تدابیر ناکام ہوگئیں ۔ ایک سال مکمل ہو رہا ہے مگر حکومت کالادھن کا پتہ لگانے اور ہر شہری کے بنک اکاونٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرانے میں ناکام ہوگئی ۔ دیہی علاقوں کے اے ٹی ایم میں آج بھی نو کیاش کے بورڈ ہیں ۔ 8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے 15.4 لاکھ کروڑ روپئے مالیت کے 1000 اور 500 روپیوں کے نوٹو ںکو منسوخ کرکے عوام کو حیرت میں ڈال دیا تھا ۔ 50 دن میں حالت نہ سدھرنے پر ہر سزا کیلئے تیار رہنے کا اعلان کیا تھا ۔ دوسرے دن سے بینکوں کے باہر منسوخ شدہ نوٹوں کو جمع کرنے بھیڑ جمع ہوگئی ۔ حکومت کے فیصلے کے دو دن بعد ہی تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوگئیں متوسط طبقہ بہت زیادہ متاثر ہوا ۔ کئی افراد نے مظاہروں میں تو نے کئی ہاسپٹل میں دم توڑ دیا ۔ کئی افراد نے خودکشی کی ، کئی لڑکیوں کے گھر بسنے سے قبل اجڑ گئے ۔ وزیر اعظم اور وزیر فینانس ارون جیٹلی نے عوام سے جو بھی وعدے کئے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے ۔ ممبئی اور حیدرآباد جیسے شہروں کے عوام آج بھی پریشان ہیں ۔ دیہی علاقوں کی صورتحال اور بھی سنگین ہے ۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ۔ بنکوں کی جانب سے رولس تبدیل کرکے عوام کو اور بھی پریشان کیا گیا ۔ نریندر مودی کم از کم 5 لاکھ کروڑ روپئے کا کالادھن بنکوں میں جمع نہ ہونے کی توقع کر رہے تھے ۔ لیکن یہاں حساب الٹا ہوگیا نوٹ بندی کے پہلے ہفتوں میں منسوخ شدہ 82 فیصد نوٹ بنکوں میں جمع ہوگئے ۔ جس سے ملک کی شرح ترقی بڑی حد تک گھٹ گئی ۔ صنعتی ترقی گھٹ کر 5 فیصد رہ گئی ۔ 200 روپئے کی نئی نوٹ جاری کی گئی جو آج بھی اے ٹی ایم سے جاری نہیں ہو رہی ہے ۔ ارون جیٹلی نے منسوخ شدہ 98.96 فیصد نوٹ بنکوں میں جمع ہونے کا انکشاف اور حکومت کا فیصلہ نتیجہ خیز ثابت ہونے کا دعوی کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے سے ڈیجیٹل لین دین میں 17 فیصد اور ٹیکس ادا کرنے والوں میں 27 فیصد اضافہ ہوا لیکن ماہرین معاشیات اس کو غلط فیصلہ قرار دیتے ہوئے ملک کی معیشت تباہ ہونے کا دعوی کر رہے ہیں ۔