نوجوانوں کو رسول اکرمؐ کی سنت کے مطابق بال کٹوانے کا مشورہ

فیشن کے بال یہودیوں کی سازش کا حصہ، مولانا محمد حسام الدین جعفر پاشاہ کا بیان

حیدرآباد۔5اگسٹ(سیاست نیوز)دور حاضر میں جس طرح سے بال بنوائے جا رہے ہیں وہ سنت رسول ﷺ کی صریح خلاف ورزی ہے اور اللہ کے رسولﷺ کا حکم ہے کہ بال سنت کے مطابق ہی کاٹے جائیں ۔ مولانا محمد حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ امیر امارت ملت اسلامیہ نے نوجوان نسل میں بال کاٹنے کے معاملہ میں پیدا بگاڑ کو یہودی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ فیشن کے نام پر ترک سنت کو فروغ دیا جا رہاہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ نوجوان کے سروں پر جانوروں کی تصاویر اور مقبرہ بناتے ہوئے اپنے اشرف المخلوقات میں ہونے کا رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ والدین اس مسئلہ کی سنگین نوعیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ایسا کرنے سے روکیں ۔ مولانا جعفر پاشاہ نے مسلم اصلاح خانوں کے ذمہ داروں سے بھی اپیل کی کہ وہ اس طرح کے بال بنانے سے اجتناب کریں کیونکہ ایسے بال رکھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ نسل نو میں زندگی کا مقصد باقی نہ ہونے کے سبب ان میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور ان نوجوانوں میں بیشتر کی صورتحال یہ ہے کہ والدین خود ان کے آئیڈیل نہیں بن پائے جس کے سبب وہ شوق مزاج بنتے جا رہے ہیں۔ نوجوان نسل میں پیدا ہو رہے بگاڑ کو دور کرنے اور انہیں شریعت سے واقف کرواتے ہوئے معمولی غلطیوں کو بھی درست کرنے کی بنیادی طور پر کوشش کرنی چاہئے ۔مولانا احسن بن محمد عبدالرحمن الحمومی خطیب شاہی مسجد باغ عامہ نے نوجوانوں کے بال بنانے کے انداز پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کی حرکتیں صرف ناخواندہ نوجوان کر رہے ہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی ایسا کرتے دیکھا جا رہا ہے جو اس بات سے واقف ہی نہیں ہیں کہ ایسا کرنا حرام میں داخل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بال بنانا اخلاقی گراوٹ ہے اور اس تہذیبی انحطاط پر قابو پانے کے لئے ان نوجوانوں کے والدین کو پہلے آئیڈیل بننے کی ضرورت ہے۔ مولانا احسن بن محمد عبدالرحمن الحمومی نے کہا کہ نوجوانوں کی بال بنانے کے طریقہ اور پہناوے سے ان کے اخلاقیات وضع ہوتے ہیں اس بات کا احساس ان میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اس بات کا علم ہو کہ وہ اس طرح کے بال بنانے سے کس حد تک شوق مزاج اور آوارہ نظر آتے ہیں۔مولانا عمر عابدین نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلہ میں دو احادیث ملتی ہیں جن میں ایک حدیث میں یہ روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نظر ایک لڑکے پر پڑی جس کے کچھ بال مونڈھ دیئے گئے تھے اور کچھ چھوڑ دیئے گئے تھے جس پر نبی آخرالزماں نے حکم دیا کہ ان کے سارے بال مونڈھ دیئے جائیں۔ اسی طرح ترمذی شریف میں موجود ایک حدیث کے مطابق’’قزع‘‘ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور جو بال بنائے جا رہے ہیں اسے قزع ہی کہا جاتا ہے جس میں کچھ بال مونڈھ دینا اور کچھ چھوڑ دینا ہے۔انہوںنے بتایا کہ اسلام ایک شخصیت کو باوقار دیکھنا چاہتا ہے اور باوقار نظر آنے میں بال و پوشاک کی کافی اہمیت ہے۔ مولانا عمر عابدین نے بتایا کہ اللہ رب العزت نے کہا کہ ہم نے بنی آدم کو باعزت پیدا کیاہے ۔ انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کے سامنے دین و شریعت میں اس نامعقول عمل کے ساتھ شخصیت پر ہونے والے منفی اثرات بھی بیان کئے جانے چاہئے تاکہ وہ اس عمل کو ترک کریں۔مولانا مفتی ساجد حسین قادری نے بتایا کہ نوجوان جس انداز کے بال بنا رہے ہیں انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی جانور کی نقل کر رہے ہیں جبکہ اس طرح کے بال بنانے اور رکھنے کی سخت ممانعت ہے اس کے باوجود والدین کی اس امر سے اختیار کی جانے والی غفلت نوجوانوں میں دیگر برائیوں کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ انہوںنے نوجوانوں کے بال کٹوانے کے انداز پر والدین کی جانب سے اختیار کردہ خاموشی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو ان برائیوں سے روکنا شروع کریں تو ممکن ہے ان میں تبدیلی آئے اگر انہیں اس طرح کے بال کٹوانے اور من مانی کی آزادی فراہم کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں مستقبل میں سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مولانا ساجد حسین قادری نے کہا کہ شہری علاقوں میں پائی جانے والی یہ وباء اب ریاست کے اضلاع میں بھی پھیلنے لگی ہے اور فیشن کے نام پر کئے جانے والے اس عمل سے نوجوان نسل میں دین بیزاری پیدا ہو رہی ہے جو کہ ان کی دنیا و آخرت دونوں کی تباہی کا سبب بنے گی۔