ہر اک رسمِ کہن بدلی مزاجِ آسماں بدلا
نہ ان کی گفتگو بدلی نہ اندازِ بیاں بدلا
نواز شریف ۔ نریندر مودی ملاقات
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ مہینوں میں جس طرح کی تلخیاں پیدا ہوئی ہیں ان تلخیوں کو دور کرنے کے ارادے سے اگر دونوں ملکوں کے سربراہوں نے جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا تو حالات درست ہوسکتے ہیں ۔ فرانس کے شہر پیرس میں ماحولیاتی چوٹی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور وزیراعظم ہند نریندر مودی کے درمیان گرمجوشانہ مصافحہ اور مختصر ملاقات کو اہمیت نہ دی جائے تو دونوں ملکوں کی کشیدگی کو دور کرنے کی متبادل راہ تلاش کرنا مشکل ہوگا ۔ دونوں وزرائے اعظم کے مسکراتے ہوئے گرمجوشی مصافحہ کو ساری دنیا نے دیکھا ۔ دونوں نے جب ایک صوفے پر بیٹھ کر بے تکلفی سے بات چیت کی تو سارا میڈیا ان پر اپنی توجہ مرکوز کرچکا تھا ۔ پڑوسی ملکوں کے سربراہوں کے درمیان جب بے تکلفی سے بات چیت ہوتی ہے تو دو سرحدوں کے اس پار رہنے والے عوام کے درمیان رابطہ کاری کی راہ میں حکمرانی کے مفاد پرستانہ عوامل کو حائل ہونے نہیں دینا چاہئیے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے خوشگوار موڈ میں بات چیت کی اور ان کی خیریت دریافت کی ۔ نواز شریف نے اپنے دورہ پیرس سے قبل کہا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ ہر محاذ پر بہتر تعلقات کے متمنی ہیں ۔ بغیر کسی پیشگی شرط اور رکاوٹوں کے بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ پیرس میں نریندر مودی سے ملاقات کے بعد باہمی تعلقات میں بہتری لانے کی جانب پہل قرار دیتے ہوئے معطل شدہ مذاکرات کی بحالی کے لئے فوری کوشش کی جانی چاہئیے ۔ ہندوستان کے وزیراعظم نے پیرس میں جس جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے اس طرح ہندوستان واپسی کے بعد اپنے خوشگوار موڈ کے ساتھ پاکستان کے ساتھ درپیش تمام تلخیوں کو دور کرکے بات چیت کا احیاء کرنے کی جانب قدم اٹھانا چاہئیے ۔ ہند ۔ پاک بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایا جاتا ہے تو سرحدی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی ۔ پیرس میں ہند ۔ پاک وزرائے اعظم کی ملاقات ایک خوشگوار تبدیلی ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلی پر غور و خوص کرنے کے لئے جمع عالمی قائدین کے درمیان اگر برصغیرکے یہ دو بڑے قائدین بھی باہمی دوستی کی فضاء کو بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو اس کا خیرمقدم کیا جائے گا ۔ اس ملاقات کو عالمی میڈیا نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کے احیاء کے لئے اہم پیشرفت قرار دیا ہے ۔ اب یہاں سے دونوں ملکوں کے وفود ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت کا امکان قوی ہوجاتا ہے تو دوستی کا سلسلہ ایک بار پھر بحال ہوجائیگا ۔ وزیراعظم نواز شریف نے ہندوستان کے ساتھ بلکہ اپنے ملک سے تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ تعلقات کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے والے روابط کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نہ صرف ازخود ترقی کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنے داخلی اور خارجی معاملات کو بھی بہتر بنانا چاہتا ہے ۔ نواز شریف کا خیال بھی درست ہے کہ سب ممالک کو مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئیے ۔ ان ملکوں کو اپنے معاملات کو اچھے انداز میں آگے بڑھانا چاہئیے ۔ ہندوستان کو بھی پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی ۔ وزیراعظم مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت کو پاکستان کے ساتھ تلخیاں پیدا کرنے والے واقعات سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم مودی نے جب ازخود نواز شریف سے بڑھکر گرمجوشانہ مصافحہ کیا ہے تو اس مصافحہ کے عوض سرحد پار کی کشیدگی اور تشدد کے علاوہ سفارتی کشیدگیوں کو کم کرنے میں مدد ملنی چاہئیے ۔ اگرچیکہ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی یہ ملاقات طئے شدہ نہیں تھی اس لئے اسے سرکاری ملاقات تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ ہندوستان میں جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے پاکستان کے ساتھ تلخیوں میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ عالمی برادری بھی یہ محسوس کررہی ہے لیکن پیرس میں اس عالمی برادری کے سامنے جب دو ملکوں کے ان سربراہوں نے گرمجوشانہ ملاقات کی تو کچھ بہتری کی جانب پیشرفت ہونے کی امید پیدا ہوئی ۔ عموماً کسی بھی ملک کے سربراہ کی خارجہ پالیسی کو درست سمت میں بھی پیش کیا جاتا ہے ۔ عالمی نگاہوں کے سامنے ہر ملک کا سربراہ ایک دوسرے سے گرمجوشانہ نوعیت کے ساتھ ملتا ہے ۔ لیکن اندرون خانہ حالات مختلف ہوتے ہیں ۔ پڑوسی ملکوں کے ساتھ امن اور دوستی کے تعلقات کا مطلب ترقی اور خوشحالی کی سمت پیشقدمی ہوتا ہے ۔ ہند ۔ پاک کو بھی خاص کر پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کے لئے پڑوسی ملکوں سے اچھے روابط رکھنا ضروری ہے ۔ ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کو دور کرنے میں نواز شریف دیانتدارانہ کوشش کرتے ہیں اور جواب میں وزیراعظم نریندر مودی بھی گرمجوشانہ مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ خوش آئند تبدیلی ہوگی۔