نواز شریف کو سزا

پاکستان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو احتساب عدالت نے دس سال قید کی سزا سنادی ہے ۔ نواز شریف کو احتساب عدالت کی جانب سے پہلے ہی نااہل قرار دیدیا گیا تھا جس کے بعد انہیں وزارت عظمی سے مستعفی ہونا پڑا تھا ۔ ان کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمی سونپی گئی تھی ۔ تاہم ملک میں انتخابات کے اعلان کے بعد کارگذار انتظامیہ کا تقرر عمل میںلادیا گیا ہے اور اب انتخابات کی مہم اپنے عروج پر پہونچ رہی ہے ۔ اس مہم کے دوران نواز شریف کو سزا سنایا جانا ان کی پارٹی کیلئے حوصلہ شکن خبر کہی جاسکتی ہے ۔ نواز شریف کے علاوہ ان کی دختر مریم نواز کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ ان کے داماد کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ نواز شریف ‘ ان کی دختر وغیرہ فی الحال لندن میں مقیم ہیں جہاں ان کی اہلیہ کلثوم نواز کا کینسر کا علاج جاری ہے ۔ گذشتہ دنوں یہ خبر آئی تھی کہ نواز شریف انتخابات کی مہم میں حصہ لینے کیلئے پاکستان واپس ہونے والے ہیں تاہم نواز شریف نے خود اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کا علاج چھوڑ کر فی الحال پاکستان واپس ہونا نہیں چاہتے ۔ حالانکہ انہوں نے پاکستان واپسی سے انکار کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کے علاج کو اس کی وجہ بتایا تھا لیکن اسی وقت سے یہ شبہات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ نواز شریف عدالتی فیصلے کے پیش نظر پاکستان واپسی سے گریز کر رہے ہیں اور انہیں اندیشے ہیں کہ انہیں اس مقدمہ میں سزا سنائی جائے گی ۔ اب ان کے یہ اندیشے درست ثابت ہوئے ہیں اورا ان پر دس سال قید کی سزا کے علاوہ 8 ملین روپئے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے ۔ ان کی دختر پر دو ملین روپئے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے ۔ یہ مقدمہ لندن میں ایک پاش علاقہ میں کروڑہا روپئے مالیتی فلیٹس اور دوسری جائیدادیں خریدنے سے متعلق ہے ۔ نواز شریف پر پناما انکشافات کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ ان پر جملہ تین مقدمات درج کئے گئے تھے جن میں اب انہیں اوین فیلڈ مقدمہ میں سزا سنادی گئی ہے ۔ اس فیصلے کے ان کی پارٹی کی انتخابی مہم پر منفی اثرات مرتب ہونے لازمی ہوگئے ہیں جبکہ ان کی پارٹی کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے ۔
پاکستان میں کرکٹر سے سیاستدان بننے والے عمران خان کی پارٹی کو ان انتخابات میں کامیابی کی امید ظاہر کی جا رہی ہے اور ان کی پارٹی نے ہی نواز شریف کو عدالتی کشاکش کا شکار کرنے میں بھی سرگرم رول ادا کیا تھا ۔ عمران خان اور دوسرے قائدین کی جانب سے نواز شریف اور ان کے افراد خاندان پر کروڑہا روپئے کے خرد برد اور کرپشن کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں اور ان کو عدالتوں میں بھی ان ہی الزامات کے سلسلہ کے طور پر گھسیٹا گیا تھا ۔ پناما انکشافات کے سلسلہ میں بھی عمران خان کی پارٹی نے ہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور اسی مقدمہ میں انہیں نا اہل قرار دیدیا گیا تھا ۔ حالانکہ نواز شریف کے جانشین کے طور پر چیف منسٹر پنجاب اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا نام لیا جا رہا تھا لیکن غیر متوقع طور پر شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمی سونپی گئی تھی ۔ اس طرح سے شریف خاندان نے اپنے کسی بھی رکن کو مزید الزامات سے اور عدالتی کشاکش سے بچانے کی کوشش کی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کوششیں اسے انتخابات میں کوئی فائدہ پہونچانے میں کامیاب نہیں ہونگی اور اپوزیشن کی جانب سے جو مہم ان کے خلاف چلائی جا رہی ہے وہ اپنے منطقی انجام کو پہونچے گی ۔ اس مقدمہ میں چونکہ نواز شریف کی دختر مریم نواز کو بھی سزا سنادی گئی ہے ایسے میں اب وہ ملک میں 25 مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں مقابلہ کرنے سے نا اہل قرار پائیں گی ۔ یہی حال ان کے داماد صفدر کا بھی ہوگا جو سابق فوجی رہ چکے ہیں۔
نواز شریف اور ان کے افراد خاندان اور خاص طور پر مریم نواز نے عدالتوں میں درخواستیں داخل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اس مقدمہ میں فیصلہ کے اعلان کو موخر کیا جائے ۔ عدالتیں اس فیصلے کو سابق میں چار مرتبہ موخر کرچکی ہیں۔ تاہم اس بار عدالت نے فیصلہ مزید ملتوی کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کا اعلان کردیا ہے اور چونکہ نواز شریف اور ان کی دختر کو سزا سنادی گئی ہے ایسے میںانتخابی ماحول میں مسلم لیگ ( ن ) کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ عمران خان کی قیادت والی پاکستان تحریک انصاف پارٹی کیلئے ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کا سفر مزید سہل ہوجائیگا اور انہیں عوام کی تائید حاصل کرنے میں موجودہ حالات میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئے گی ۔ بحیثیت مجموعی نواز شریف کیلئے یہ فیصلہ جہاں ذاتی طور پر عبرت والا ہے وہیں انتخابی اعتبار سے بھی مشکلات سے پر ہی کہا جاسکتا ہے ۔