جب تم ادا کرچکو نماز تو ذکر کرو اللہ تعالی کا کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہوئے) پھر جب مطمئن ہو جاؤ (دشمن کی طرف سے) تو ادا کرو نماز (حسب دستور) بے شک نماز مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے اپنے اپنے مقرر وقت پر۔ (سورۃ النساء۔۱۰۳)
نمازِ خوف کا طریقہ تعلیم کرنے کے ساتھ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگرچہ خوف کی حالت میں تم نماز کو اس کی اصلی ہیئت کے مطابق سکون و طمانیت سے ادا نہیں کرسکتے تو اپنی زبان و دل کو تم جس حالت میں بھی ہو ذکر الہی میں مصروف رکھو، تاکہ اس کی یاد میں غفلت نہ آنے پائے اور جنگ کی حالت میں کثرت سے ذکر الہی کرنے کی تاکید تو دوسری متعدد آیتوں میں آئی ہے۔ مثلا ’’جب دشمن سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو‘‘۔ ’’اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو‘‘۔ پھر جب خوف دور ہو جائے تو نماز کو اس کی اصلی ہیئت کے مطابق ادا کرو۔
نماز کے متعلق یہاں دو خصوصیتوں کا ذکر فرمایا، یعنی ’’کتابًا‘‘ اور ’’موقوتًا‘ ‘کتاب کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی ادائیگی تم پر فرض ہے، تمہاری مرضی پر اس کا انحصار نہیں کہ موج میں آئے تو ادا کرلی اور موج میں نہ ہوئے تو چھوڑدی، بلکہ مالک الملک شہنشاہ دوجہاں کا تاکیدی حکم ہے اور اس کی ادائیگی تم پر فرض ہے۔ ’’موقوتا‘‘ کا معنی ہے کہ اس کی ادائیگی کے لئے اوقات مقرر ہیں (قرطبی) اس لئے ہر نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا فرض ہے، یہ نہیں کہ جب جی چاہا اٹھ کھڑے ہوئے اور دو تین ایک ساتھ پڑھ لیں۔ اس آیت میں غور کریں اور ہر نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اوقات میں ادا کریں۔