کہیں نہ کہیں آغاز ضروری ،سابق چیف الیکشن کمشنر ایچ ایس برہما کا احساس
نئی دہلی ۔ /5 فبرور ی (سیاست ڈاٹ کام) سیاسی پارٹیوں کو فی کس 10 ہزار روپئے نقد رقم کا عطیہ ایک قابل استقبال اقدام ہے ۔ لیکن دفعات کو مزید سخت بنایا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ سیاسی پارٹیاں اب بھی قوانین سے بچ نکلنے کی راہ تلاش کرسکتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کا مقصد انتخابی نظام کو کالے دھن سے پاک کرنا ہے ۔ سابق چیف الیکشن کمشنر نے اندیشہ ظاہر کیا کہ سیاسی پارٹیاں ہمیشہ قوانین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے راستے تلاش کرلیتی ہیں ۔ اس لئے انہوں نے تجویز پیش کی کہ سیاسی پارٹیوں کو عطیہ جات مکمل طور پر ’’کیش لیس‘‘ بنایا جانا چاہئیے تاکہ مزید شفافیت پیدا ہوسکے ۔ انہوں نے قبل ازیں کئی انتخابی اصلاحات کی تجویز پیش کی تھی جبکہ وہ الیکشن کمیشن میں برسرکار تھے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اختیارات دیئے جانے چاہئیے کہ وہ ایسی سیاسی پارٹیوں کو غیرمسلمہ قرار دیں جو طویل مدت سے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی ہیں ۔ کیونکہ وہ صرف کالے دھن کو سفید دھن میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں انتخابی نظام کو کالے دھن سے پاک کرنے بڑے اقدامات کی تجویز پیش کی گئی ہے ۔ چنانچہ سیاسی پارٹیاں صرف 2000 روپئے تک نقد عطیہ قبول کرسکتی ہیں ۔ مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کو چیک یا ڈیجیٹل طریقہ کار سے اپنے عطیہ دہندگان سے عطیے حاصل کرنے کی سہولت برقرار رہے گی ۔ فی الحال سیاسی عطیہ جات کی حد 20 ہزار روپئے نقد رقم ہے ۔ انتخابی کمیٹی نے حال ہی میں حکومت سے خواہش کی تھی کہ اس حد تک 2 ہزار روپئے کردیا جائے اور اس کے لئے قانون ایوان نمائندگان اور قانون انکم ٹیکس میں تبدیلی کردی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک قابل خیرمقدم اقدام ہے ۔ حالانکہ اسے مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ پھر بھی یہ 90 فیصد درست اقدام ہے ۔ ہمیں آخر کار کہیں نہ کہیں سے آغاز کرنا ہی چاہئیے ۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایچ ایس برہما نے اپنے عہدہ کا چارج سبکدوشی پر نئے چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی کو دیا ہے۔