ملک کی پانچ ریاستوںمیں اسمبلی انتخابات کی تواریخ اور شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے ۔ انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے سات ہی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہوگئی ہیں۔ جو مصروفیات اور سرگرمیاں انتخابات سے متعلق ہیں ان کا تو خیر مقدم کیا جاتا ہے کیونکہ یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے اور اس میں ملک کے عوام کو اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔ تاہم ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوا ہے اس وقت سے ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں ایک بار پھر تیز ہوگئی ہیں۔ ملک میں گذشتہ عرصہ میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کبھی اور جہاں کہیں انتخابات کا موسم ہوتا ہے مختلف گوشوں کی جانب سے سماج کے مختلف طبقات کے مابین نفرت پیدا کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔ نت نئے انداز سے فرقہ وارانہ نوعیت کے بیانتا دئے جاتے ہیں۔ ایسے مسائل کو چھیڑا جاتا ہے جو عرصہ سے برفدان میں ہوتے ہیں۔ ان مسائل کا حالانکہ ملک کی ترقی اور جہاں انتخابات ہونے والے ہیں ان ریاستوں کی فلاح و بہبود اور عوام کو سہولیات پہونچانے سے کوئی راست تعلق نہیں ہوتا ۔
ان مسائل سے ملک کی ترقی کا عمل متاثر ہورتا ہے اور سماج کے طبقات ایک دوسرے کے خلاف نفرت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے شاکی ہوجاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ملک کی ترقی قطعی ممکن نہیں ہوسکتی بلکہ اس سے ملک کی رسوائی ہوتی ہے اور ماضی میں تو ساری دنیا میں ہندوستان کی امیج کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ۔ عالمی میڈیا کے بڑے اداروں نے ہندوستان کی تحمل و رواداری کی مثالوں کو پیش کرتے ہوئے موجودہ ماحول پر سوال کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ یہاں انسانوں سے زیادہ جانوروں کے حقوق کی بات ہوتی ہے اور جانوروں کے گوشت کے نام پر انسانوں کو قتل کردیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور اب بھی ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور سماج میں دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں اور یہ کوششیں قابل مذمت ہیں۔ اس سے ملک کی کوئی بہتری تو نہیں ہوتی بلکہ اس سے ملک کی بد خدمتی ضرور ہوتی ہے ۔
ملک میں سرسوتی وندنا ‘ وندے ماترم ‘ بھارت ماتا کی جئے جیسے نعروں پر ماحول کو گرمایا جا رہا ہے ۔ کسی گوشے سے وقفہ وقفہ سے رام مندر کی تعمیر کے مطالبات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور معمولی باتوں پر غداری کے الزامات تھوپنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے کو غدار کہتے ہوئے ہم یہ بھول رہے ہیں کہ اس سے ہندوستان کی امیج متاثر ہو رہی ہے ۔ ملک کے دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ۔ دستور ہند نے سارے ہندوستانیوں کیلئے ایک چارٹر پیش کردیا ہے ۔ ہم دستور کے مطابق عمل کرنے کی بجائے اپنے اپنے دھرم اور اپنی اپنی آستھا پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ طریقہ ناقابل قبول ہے ۔ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اس طریقہ کار سے ملک کی ترقی کا سفر متاثر ہو رہا ہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہم ایک ایسے دور سے گذر رہے ہیں جب ملک کی معیشت نے ساری دنیا کیلئے ایک مثال پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دنیا بھر میں معاشی انحطاط کے وقت میں ہندوستان کی معیشت نے بہترین ترقی کی ہے اور اس نے دوسری معیشتوں کیلئے مثال پیش کردی ہے ۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام اور ممالک ہندوستان کی سمت امید سے دیکھ رہے ہیں ‘ ایسے میں اگر خود اپنے ابنائے وطن سے حب الوطنی کا ثبوت مانگیں اور متنازعہ نعروں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو غدار قرار دیتے رہیں تو اس سے دنیا بھر میں ہماری شبیہہ کو جو نقصان ہوگا یا ہو رہا ہے وہ ناقابل تلافی ہوگا اوراس کی ذمہ داری سارے ہندوستانیوں پر عائد ہوگی ۔
اکیسویں صدی کو ہندوستان کی صدی بنانے یا ملک کو توقعات کے مطابق ترقی دلانے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے ہندوستانی ایک جٹ ہوجائیں اور ایسی طاقتوں کو مسترد کردیں جو ملک میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آج بھی آدھا ہندوستان بھوکا سوتا ہے ۔کسی کی تجوریاں دولت اور سونے کے انبار سے بھری پڑی ہیں تو کوئی دو وقت کی روٹی کیلئے خون بیجنے پر مجبور ہے ۔ یہ صورتحال سارے ہندوستانیوں کیلئے فکر و تشویش کا باعث ہونی چاہئے ۔ ہمیں ایسے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کے حل سے ہم واقعی ہندوستان کو ایک مثالی ملک بناسکیں اور ملک کے عوام کی مشکلات کو ختم کیا جاسکے ۔