رفتہ رفتہ خال و خد سب مٹ گئے
کیسا بے چہرا ہوا ہے آدمی
نفرت کا ماحول عروج پر
ملک میں جیسے جیسے آئندہ عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ مخصوص گوشوں کی جانب سے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہوئے نفرت کے ماحول کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ تک ملک میں مسلمانوں کو گائے کے نام پر تشدد کا نشانہ بنانے اور ہجوم کے ہاتھوں پیٹ پیٹ کر انہیں ہلاک کرنے کے واقعات میںکچھ وقت کیلئے کمی درج کی گئی تھی لیکن ایک بار پھر یہ ماحول پراگندہ کیا جارہا ہے اور حالیہ عرصہ میں ایسے واقعات دوبارہ وقوع پذیر ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف گوشوں سے ایسے بیانات دئے جانے شروع ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے سماج میں منافرت کو ہوا مل رہی ہے ۔ ہر موقع پر انتخابات کے دوران ایسے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں اور ان کا مقصد سماج میں نفرت کی دیوار کو مزید مستحکم کرنا ہوتا ہے اور اس سے سماج کے مختلف طبقات کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس طرح کی ذہنیت کو فروغ دیدیا گیا ہے کہ اگر ایسے حالات پر کسی گوشے سے تنقید کی جاتی ہے تو اس کا بھی استحصال کرتے ہوئے حالات کو مزید ابتر بنانے اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے حربے شروع ہوجاتے ہیں اور اس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے ۔ حالات کی سنگینی اپنی جگہ ضرور برقرار ہے اور اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اب ملک کے اسکالرس اور سپریم کورٹ کے وکلا تک بھی ان حالات پر افسوس اور تشویش ظاہر کرنے لگے ہیں۔ جس طرح سپریم کورٹ کی ایک سینئر وکیل نے کہا ہے حالات اس قدر ابتر ہوگئے ہیں کہ مسلمانو کو نشانہ بنانا ‘ انہیں ایذا رسانی اور ان پر حملے کرنا در اصل فرقہ پرستوں کیلئے تمغہ اعزاز بن گیا ہے ۔ یہ لوگ ایسے جرائم کو اپنے کارناموں کے طور پر پیش کرنے لگے ہیں اور ان کے اس طرح کے جرائم اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کو مرکزی وزرا کی جانب سے گلپوشی کرتے ہوئے حوصلہ بخشا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کا ارتکاب کرنے والے جب عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرکے رہا ہورہے ہیں تو مرکزی وزرا کی جانب سے ان کی گلپوشی کی جا رہی ہے ۔
جہاں تک حکومت کے اور بی جے پی کے ذمہ داروں کا سوال ہے وہ لوگ اس طرح کے واقعات پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ۔ جب کبھی کسی گوشے سے کوئی رد عمل ظاہر بھی کیا جارہا ہے تو یہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اس سے بالواسطہ طور پر ایسے حملے کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہی ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتا ہے اور اس کا واحد مقصد یہی ہے کہ کسی طرح سے ملک کے مختلف طبقات کے مابین اور خاص طور پر دو اہم طبقات کے مابین نفرت اور کشیدگی برقرار رہے اور اس میں ممکنہ حد تک اضافہ کرتے ہوئے سیاسی فائدے حاصل کئے جاسکیں۔مسلمانو ںکو حاشیہ پر لانے کیلئے جو مہم شروع ہوئی تھی اس کو بتدریج شدت سے آگے بڑھایا جا رہا ہے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کیلئے کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ یہ سارا کچھ ہندوستان کو خاموشی کے ساتھ اور منظم انداز میں ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے جس کیلئے دستور کو بدلنا ضروری ہوگا اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ مرکزی وزرا اور ذمہ داران بھی یہ کہنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں کہ وہ دستور میں ترمیم کرنے کیلئے ہی اقتدار پر آئے ہیںاور یہی ان کا مقصد ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جب مرکزی وزرا اس طرح کا بیان دیتے ہیں تو حکومت کے دوسرے ذمہ داران یا سینئر وزرا اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتے اور نہ ان کی سرزنش کی جاتی ہے ۔ جب سینئر وزرا خاموشی اختیار کرتے ہیں تو ایک طرح سے جونئیر وزرا کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔
مختلف گوشوں سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں اس ملک کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے پاک کردیا جائیگا ۔ اس پر بھی حکومت کے ذمہ داران اور کرتا دھرتا قائدین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہ کوئی جوابی وضاحت تک نہیں کرتے ۔ حکومت کی جانب سے الگ قانونی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دی جاتی ہے اور انہیں حاشیہ پر لانے کے ہر طرح کے اقدامات ہوتے ہیں ۔ یہ سارا کچھ محض اس مقصد کیلئے ہے کہ بی جے پی کی سیاسی طاقت میں بے تحاشہ اضافہ کیا جائے اور اسے دستور میں ترمیم کرنے کی عددی طاقت حاصل ہوجائے ۔ جیسے ہی یہ طاقت بی جے پی کو حاصل ہوجائیگی بی جے پی دستور میں ترمیم کرنے اور اس ملک کو سکیولر ازم سے ہٹا کر ہندو راشٹر بنانے کا کام کریگی ۔ یہ ایسی مہم ہے جس کو ناکام بنانا ہر شہری اور ہر ذمہ داری سیاسی جماعت کا فریضہ ہے ۔