حالات نے پہونچادیا منصب پہ تو کیا ہے
اس دور کا حاکم بھی کٹہرے میں کھڑا تھا
نفرت پھیلانے والے جنونی
سوشیل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے رائے دہندوں کے دل و دماغ پر حاوی ہونے والی بی جے پی اب ازخود اس گروپ کا نشانہ بن رہی ہے۔ ٹوئیٹر اکاؤنٹس ہو یا انسٹرا گرام اور فیس بُک یا پھر واٹس ایپ پر وزیر خارجہ سشما سوراج سے لے کر کانگریس ترجمان پرینکا چترویدی تک سیاسی پارٹیوں کی خاتون ذمہ داروں کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سشما سوراج نے لکھنؤ کے ایک جوڑے کے پاسپورٹ مسئلہ میں مداخلت کی تو ان کے خلاف ٹرالرس نے بیہودہ تبصرے شروع کئے۔ بی جے پی میں خاتون قائدین کی توہین کرنے والے واقعات حکمراں پارٹی کے لئے باعث شرمندگی بنتے جارہے ہیں۔ سوشیل میڈیا کو ملک کے ایک خاص طبقہ کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے آلہ کار بنانے والی بی جے پی اب معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل اسی سوشیل میڈیا کی گمراہ کن نفرت پر مبنی پروپگنڈہ مہم کا شکار ہوجائے گی۔ نفرت پھیلاکر مسلمانوں کو نشانہ بنانے یا مویشیوں، گاؤکشی اور گوشت کھانے جیسے حیلے بہانوں سے مسلمانوں کا ہجوم کی جانب سے قتل کرانے کے واقعات ہندوستان کے ماتھے پر سیاہ داغ لگاچکے ہیں۔ وزیراعظم مودی نے 2014 ء میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیا تھا تو وہ ملک کے رائے دہندوں کی بڑی تعداد کو اپنی جانب راغب کرانے میں کامیاب ہوئے تھے مگر ایک طرف اب یہ نعرہ عوام کے سینے میں گرم سلاخ کی مانند چبھنے لگا ہے تو دوسری طرف وزیراعظم مودی اور صدر بی جے پی امیت شاہ اسی سوشیل میڈیا پر اپنے ہی کارکنوں و قائدین سے نبرد آزما دکھائی دے رہے ہیں۔ مرکز تک پہونچنے کے لئے آر ایس ایس نے گزشتہ ایک صدی سے جدوجہد کی تھی لیکن جب بی جے پی کی شکل میں آر ایس ایس کا خواب پورا ہوا تو نفرت پھیلانے والے قائدین بی جے پی کے اندر ہی رہ کر اس عمارت کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہے ہیں جسے آر ایس ایس نے کافی محنت سے کھڑی کی تھی۔ مرکز کی بی جے پی حکومت خود اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہوتی ہے تو یہ آر ایس ایس کے ارمانوں پر پانی پھیر دینے والا واقعہ ہوگا۔ سوشیل میڈیا کے ذریعہ نفرت پھیلانے کا اُلٹا اثر دکھائی دینے لگا ہے۔ مسلمانوں کو بدنام اور ناکام کرنے کی کوشش کرنے والوں نے انتہا سے زیادہ افواہیں پھیلادی ہیں اور نفرت کے اس پروپگنڈہ نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شرپسند جنونیوں نے واٹس ایپ، ٹوئیٹر اور فیس بُک کا استعمال اس نہج اور طرز پر کیا ہے کہ سماج کے اندر عدم اطمینانی اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اب یہ مسئلہ مرکزی حکومت اور پولیس کے علاوہ ریاستوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے گاؤ رکھشکوں کی غنڈہ گردی کو روکنے کے لئے ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ ان نفرت پھیلانے والے جنونیوں پر قابو پانا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران نفرت پھیلانے والے ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے۔ یہ اموات سوشیل میڈیا پر افواہیں پھیلانے کا نتیجہ ہیں۔ ہجوم کے تشدد کا مسلمان ہی زیادہ تر نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ ان بربریت انگیز کارروائیوں کو روکنا ریاستی حکومتوں اور پولیس کا کام ہے۔ پولیس کی یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ افواہیں پھیلانے والے جنونیوں پر قابو پائے۔ ان افواہوں کا شکار عام طور پر نقل مکانی کرکے آنے والے مزدور، بھکاری اور سیاح ہوتے ہیں۔ جھوٹی خبریں پھیلاکر سماج کے اندر ایک طرح کی بے چینی پیدا کرنا مرکز اور ریاستی حکومتوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ آئندہ پارلیمنٹ کے انتخابات تک اگر قومی سطح پر بی جے پی کا کھیل بگڑ جائے تو اس کے لئے وہ خود قصوروار ہوگی کیوں کہ اس حکمراں پارٹی نے ملک کے اہم مسائل اور عوامی موضوعات پر غور و خوض کرنے کے بجائے نفرت پھیلانے معاشرہ کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے والے واقعات کو بڑھاوادیا۔ عوام سے زیادہ بی جے پی کے اندر ہی کئی قائدین پارٹی کی ناکامیوں سے ناراض ہیں اور پارٹی سے نکل کر اپنا الگ گروپ بنارہے ہیں۔ اس طرح کے قائدین میں یشونت سنہا، شتروگھن سنہا قابل ذکر ہیں۔ شیوسینا نے پہلے ہی بی جے پی سے دوری اختیار کرلی ہے۔ کل تک ہندوستانی معاشرہ کو ساری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اب نفرت پھیلانے والے جنونیوں کی وجہ سے رواداری، کثیرالوجود اور پرامن بقائے باہم کے اہم اقدار کمزور ہورہے ہیں۔
روپیہ کی قدر میں گراوٹ
ہندوستانی کرنسی روپے کی قدر میں جب بھی گراوٹ ہوتی ہے اس کے اثرات سیاسی امکانات پر مرتب ہوئے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد ملک کے بینک نظام پر سے عوام کا بھروسہ اُٹھتا دکھائی دینا افسوسناک واقعہ کہلائے گا۔ آر بی آئی ڈیٹا سے ہی ظاہر ہورہا ہے کہ ملک کی بینکوں میں ڈپازٹ کا رجحان کم ہوگیا ہے اور ملک کے بینکنگ سسٹم پر عوام کا اعتماد بھی متزلزل دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی کرنسی کی قدر میں تیزی سے گراوٹ آرہی ہے۔ جب سے بی جے پی حکومت نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے، سٹے بازی سے لے کر دیگر کئی غیر قانونی کاموں کو مبینہ طور پر بڑھاوا دیا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت جب ملک کی معیشت جھکولے کھارہی ہے حکومت کی ترجیح کچھ اور ہی دکھائی دیتی ہے۔ اگر روپے کی قدر گرنے کی کیفیت یوں ہی برقرار رہتی ہے تو بی جے پی کی قدر بھی تیزی سے گرجائے گی۔ ملک کے طول و عرض میں معاشی صورتحال یہ بتارہی ہے کہ زرعی شعبہ تباہی کا شکار ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور سالانہ ایک کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ آئندہ چند ماہ مرکز کی بی جے پی حکومت کو بقا کے لئے جدوجہد کرنے کا اہم موقع ہوں گے۔ اگر حکومت نے صورتحال کی سنگینیوں کو محسوس نہیں کیا تو ہندوستانی معیشت کی ابتری کے لئے رائے دہندے اسے ہی ذمہ دار ٹھہرا کر روپے کی قدر میں گراوٹ کی طرح اس کی قدر بھی گراوٹ کا شکار ہوگی۔