پھول تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن
اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں
نفرت اور عداوت
نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت اگر کسی بڑے سرکاری ادارہ کے سربراہ پر شک و شبہ کیا جاتا ہے تو یہ قومی بداعتمادی کا سب سے بڑا سانحہ سمجھاجائیگا۔ بی جے پی کے اندر موجود بعض قائدین خود کو ہی قابل اور ماورائے دستور اتھاریٹی سمجھتے ہیں اس لئے گورنر آ ر بی آئی اور دیگر عہدیداروں کے تعلق سے ان کی رائے اور تبصروں نے مودی حکومت کی فکری صلاحیتوں پر سوال اٹھانا شروع کر دیا تھااور جب مسئلہ حب الوطنی کا پیدا ہوا تو گورنر آر بی آئی رگھورام راجن کو نشانہ بنایاگیا ۔ بی جے پی میں شامل سبرامنیم سوامی اپنی بے تکی باتوں کے لئے مشہور ہیں ‘ بحیثیت دانشور ان کی قابلیت کا استعمال نفرت اور عداوت کے طور پر ہونے لگے تو پھر وزیراعظم مودی کو از خود ان کے خلاف بولنے کے لئے آگے آنا پڑا ۔ وزیراعظم نے رگھورام راجن کے کام اور ان کی حب الوطنی دونوں کی پرزور توثیق کی اس سبکدوش ہونے والے عہدیدار کے لئے یہ ایک بہت بڑی راحت سمجھی جائیگی۔ شخصی یا ذاتی حملے کرنے کی عادت کا شکار سبرامنیم سوامی نے رگھورام راجن کی حب الوطنی اور یکجہتی پر سوال اٹھایا تھا ۔ وزیراعظم مودی کو سبرامنیم سوامی کے خلاف بہت پہلے ہی بیان دینے کی ضرورت تھی ۔ اب تک مودی کی خاموشی کی وجہ سے بی جے پی اور حکومت کے اندر ناراضگیاں پیدا ہوئیں ‘ رگھورام راجن کو سبکدوش کے لئے مجبور کرنے والے سبرامنیم سوامی کے خلاف مودی کا موقف سخت ہے لیکن انہوں نے اپناموقف ظاہر کرنے میں تاخیر کردی ‘ کسی بھی ہندوستانی کی حب الوطنی کے تعلق سے کوئی بھی دوسرا شہری مشتبہ بیانات نہیں دے سکتا اگر کسی کو شبہ ہو تو اسے اپنے شبہ کے حوالے سے تصدیق کرنا ہوگا ۔ مگر مودی حکومت میںقوم پرستی اور حب الوطنی کا جو توازن رکھا جا رہا ہے اس سے نفرت کی فضاء پیدا ہو رہی ہے ۔ اگرچیکہ وزیراعظم نے رگھورام راجن کو ایک حب الوطن شہری قرار دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ کسی سے بھی رگھورام راجن کی دیش بھکتی کم نہیں ہے ‘‘ لیکن اصل تنازعہ سبرامنیم سوامی ہے کہ جن پر لگام لگانے میں تاخیر کی گئی ۔ حکومت نے سبرامنیم سوامی کے غیر ضروری بیانات کا نوٹ لے کر ان کے دو جلسوں کو منسوخ کروایاہے ۔ اب اچھی بات ہے کہ دیر سے ہی سہی حکومت نے بے تکے پن کی فضاء کو مزید خراب ہونے سے پہلے ہی لگام لگا دی ۔ سبرامنیم سوامی نے نہ صرف رگھورا م راجن کے خلاف بیانات دیئے بلکہ انہوں نے وزیرفینانس ارون جیٹلی اور وزارت فینانس میں جیٹلی کے بااعتماد مددگار پر بھی انگلیاں اٹھائی تھیں ۔ اس طرح ہمیشہ سرخیوں میں رہنے کے شوق نے سبرامنیم سوامی کو مقبول بنانے میں مدد کی مگر جب ان کی حد سے زیادہ بیان بازی سے مودی حکومت پر انگلیاں اٹھنی لگی تو وزیراعظم کو از خود بیان دینا پڑا ‘ اگر کوئی بھی لیڈر خود کو ماورائے دستور اتھاریٹی سمجھنے لگے تو یہ بہت بڑی بھیانک غلطی یا غلط فہمی ہوگی ۔ سبرامنیم سوامی بھی ایک عرصہ سے خود کو ماورائے دستور اتھاریٹی اور ایک قابل اور دانا شخص سمجھنے لگے ہیں ۔ سرکاری نظم و نسق کے معاملوں میں غیر متعلقہ شخص کو بولنے کا موقع یا کھلی چھوٹ دی جائے تو نظم و نسق میں بے چینی اور اضطراری کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ راگھورام راجن کے تعلق سے نریندر مودی کا حمایتی بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ گورنر آر بی آئی کی حیثیت سے رگھورام راجن کی واپسی کا اختیار کھلا رکھنا چاہتے ہیں یا پھر ہندوستان میں ان کی خدمات کو دوسرے شعبوں کے لئے منتخب کرنے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے ۔ مودی حکومت کو اول تو یہ محسوس ہونا چاہئے کہ ملک کے اندر اس طرح کی بیان بازی اور تبصروں سے کوئی سیاسی و سماجی فوائد حاصل نہیں کئے جاسکتے‘سوامی کے ریمارکس نہ صرف غیر مناسب ہوتے ہیں بلکہ ان کے بیانات تشہیری حربے معلوم ہوتے ہیں ۔ عوام کو مہیا کی جانے والی سستی ترین سرکاری خدمات سے ملک کی بھلائی نہیں ہوگی مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ سستی شہرت کے ہتھکنڈے اختیار کرنے سے زیادہ نظم و نسق کی بہتری پر توجہ دے ۔ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے جواسباب و علل ہوتے ہیں ان کا اشارہ سبرامنیم سوامی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے ۔ مودی نے بروقت نہ سہی تاخیر سے سبرمنیم سوامی کے بیانات کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے ۔ بہرحال اس بیان کے بھی جوکچھ حقائق ہوتے ہیں وہ کبھی نہ کبھی سامنے آئیں گے ۔