نئی دہلی 12 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج لاء کمیشن سے خواہش کی کہ وہ سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے قائدین کی جانب سے نفرت انگیز تقریریں کرنے کے مسئلہ کا جائزہ لے اور رہنمایانہ خطوط کا تعین کرے تاکہ ایسے اشتعال انگیز بیانات پر قابو پایا جاسکے۔ جسٹس بی ایس چوہان کی زیرقیادت سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے اپنے طور پر رہنمایانہ خطوط کے تعین سے انکار کرتے ہوئے لاء کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ اِس مسئلہ کا جائزہ لے اور مرکزی حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرے۔ عدالت نے این جی او پرواسی بھلائی سنگھٹن کی ایک درخواست مفاد عامہ پر فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ نفرت انگیز تقریریں جمہوریت کے تانے بانے کو تباہ کردیتی ہیں اور دستور کی دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
درخواست مفاد عامہ میں مہاراشٹرا اور آندھراپردیش کو مدعی علیہ بنایا گیا تھا کیونکہ اِن ہی دونوں ریاستوں میں مبینہ طور پر نفرت انگیز تقاریر دیکھی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے مبینہ نفرت انگیز تقاریر کا حوالہ دیا جو مہاراشٹرا میں مہاراشٹرا نو نرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے کی تھی اور دعویٰ کیاکہ ریاست میں اُن کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کروائی گئی ہے۔ درخواست مفاد عامہ میں کہا گیا تھا کہ آندھراپردیش میں کل ہند مجلس المسلمین کے قائد اکبرالدین اویسی نے مبینہ طور پر چند نفرت انگیز کے تقاریر کی تھیں جن کی بناء پر اُنھیں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ وہ ایک بار پھر مہاراشٹرا کے شہر ناندیڑ میں اِسی قسم کی تقریر دعویٰ کرچکے ہیں۔