نظام شوگر فیاکٹری کا بُرا حال، جاریہ سال کرشنگ نہ کرنے کا فیصلہ، کسان پریشان

مزدوروں میں مایوسی، آندھرائی سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ سے آصفجاہی دور کی یادگار تباہ، سرپور کاغذ نگر پیپر ملز پر بھی حکومت کی خصوصی توجہ درکار
حیدرآباد 29 نومبر (نمائندہ خصوصی) آصفجاہی دور حکومت میں قائم کردہ اداروں اور فیاکٹریوں کو آندھرائی حکمرانوں نے جی کھول کر لوٹا، اس کے تحت جو اراضیات تھیں انھیں حکومت کی تحویل میں لینے کے نام پر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے خانگی اداروں کے حوالے کردیں۔ حد تو یہ ہے کہ آصفجاہی دور میں قائم کردہ اداروں اور فیاکٹریوں کے نام و نشان مٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ آندھرائی حکمرانوں نے تلنگانہ سے جاتے ہوئے نظام شوگر فیاکٹری کو بھی ایک طرح سے تباہ کردیا۔ یہ فیاکٹری حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے 1937 ء میں قائم کی تھی اور اسے سارے ایشیاء میں شکر سازی کی سب سے بڑی فیاکٹری ہونے کا اعزاز حاصل تھا لیکن آج اس تاریخی اور ہزاروں لاکھوں مزدوروں و کسانوں کو روزگار فراہم کرنے والی نظام شوگر فیاکٹری کا بُرا حال ہے۔ تلنگانہ مزدور سنگھ میدک کے مطابق فی الوقت نظام شوگر فیاکٹری کا انتظامیہ نے بُرا حال کردیا ہے۔ فیاکٹری کے علاقہ میں ایک لاکھ ٹن گنا موجود ہے لیکن انتظامیہ نے جاریہ سال کرشینگ نہ کرنے کا کسان اور مزدور دشمن فیصلہ کیا ہے۔ فیاکٹری میں عارضی مزدوروں کی حیثیت سے کام کرنے والے ورکروں کو نکال دیا گیا ہے اور جو مزدور مستقل ہیں انھیں دو ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ تلنگانہ مزدور سنگھ کا الزام ہے کہ انتظامیہ مزدوروں کی تنخواہوں سے منہا کی جانے والی پی ایف کی رقم 8 ماہ سے جمع نہیں کرارہی ہے۔ اس ضمن میں ایک تحریری شکایت کمشنر محکمہ لیبر سے بھی کی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان 8 ماہ کے دوران کئی ملازمین وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ہیں۔ انھیں آج تک وظائف جاری نہیں کئے گئے۔ نتیجہ میں ان کے خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ جب بھی کوئی نمائندگی کی جاتی ہے لیبر کمشنر اور کلکٹر سے یہی جواب ملتا ہے کہ یہ مسئلہ موجودہ انتظامیہ اور حکومت کے درمیان زیرالتواء ہے اس کے حل کے لئے وقت درکار ہے۔ تلنگانہ مزدور سنگھ کے قائدین کا کہنا ہے کہ مفاد پرست عناصر نے اس عظیم فیاکٹری کو ایک ایسے مقام پر پہنچادیا ہے جہاں گنے کی کاشت کرنے والے کسان اور فیاکٹری میں محنت کرنے والے مزدور دونوں دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔ حکومت کو ان کی بے بسی اور فاقہ کشی کا کوئی احساس نہیں جبکہ انتظامیہ کافی عرصہ سیبے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1988 ء تک بھی نظام شوگر فیاکٹری پورے آب و تاب اور شان و شوکت سے کام کررہی تھی اس کے جملہ 9 یونٹس (5 یونٹس تلنگانہ اور چار یونٹس آندھراپردیش) میں قائم کئے گئے تھے اور فیاکٹری منافع میں چل رہی تھی۔ ایک کروڑ روپئے منافع فیاکٹری کے بینک کھاتے میں پڑا رہتا جبکہ منافع کی رقم سے کسانوں کو ترغیبات اور مزدوروں کو سالانہ ایک ماہ کی تنخواہ بطور بونس دی جاتی تھی۔ لیکن 1988 ء سے آندھرا کے مفاد پرست سیاستدانوں اور مفاد پرست عہدیداروں نے بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ شروع کی، فیاکٹری کی سرگرمیوں کو وسعت دینے کے بجائے آندھرائی گتہ داروں کو ٹھیکے (گتے) دیئے گئے جنھوں نے اپنا کام نامکمل چھوڑ دیا اور رقم لے کر فرار ہوگئے۔ جبکہ فیاکٹری انتظامیہ کمیشن سے اپنا جیب اور منہ بھر کر فیاکٹری کو خسارہ کی طرف ڈھکیل دیا۔ اس طرح جس فیاکٹری کے اپنے اکاؤنٹ میں بہ یک وقت کروڑہا روپئے ہوا کرتے تھے 2002 ء میں اس کے اکاؤنٹ میں کچھ باقی نہیں رہا۔ کسانوں اور مزدوروں کے مطابق نظام شوگر فیاکٹری اور اس کی اراضی و دیگر جائیدادوں کی تباہی میں تلگودیشم سربراہ اور آندھراپردیش کے موجودہ چیف منسٹر مسٹر این چندرابابو نائیڈو کا مبینہ اہم رول رہا۔ انھوں نے خانگیانے کی پالیسی کے تحت اس تاریخی فیاکٹری کو سال 2002 ء میں خانگی انتظامیہ کے حوالے کردیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اسی انداز میں نظام شوگر فیاکٹری کو لوٹ لیا اس کی مشنری فروخت کردی جس طرح انگریزوں نے ہندوستان کو لوٹا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اس فیاکٹری میں تانبے اور پیتل سے بنی جرمن مشنری استعمال کی جاتی رہی لیکن انتظامیہ نے اس مشنری کو اسکراپ کے طور پر فروخت کرکے 200 کروڑ روپئے حاصل کئے اور اس کا کہیں اندراج نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ فیاکٹری کو نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کا بہانہ بناتے ہوئے متعدد بینکوں سے 300 کروڑ روپئے کا قرض حاصل کیا گیا اور مشینیں فراہم کرنے والی کمپنیوں سے کروڑہا روپئے بطور رشوت حاصل کی گئی۔ انتظامیہ نے ظالمانہ روش اختیار کرتے ہوئے ملازمین کی تعداد میں تخفیف کرکے جملہ 3000 ملازمین میں سے 2700 ملازمین کی خدمات برخاست کرکے انھیں بے روزگار کردیا۔ آصفجاہی دور میں فیاکٹری کے ساتھ 17000 ایکر اراضی تھی جس پر فیاکٹری کے تقرر کردہ کسان گنے کی کاشت کیا کرتے تھے اور اس سے 6 ماہ تک فیاکٹری چلانے کیلئے گنا (نیشکر) اُگایا جاتا تھا۔ ساتھ ہی نظام ساگر کی ایک کنال اس 17 ہزار ایکر اراضی اور اس سے متصل علاقہ شکر نگر کو سیراب کرتی تھی۔ یہ شہر حضور نظام نے کسانوں اور مزدوروں کے لئے بسایا تھا جہاں انھیں اسپتال، اسکولس، بازاروں، سنیما ہالوں، مندر، مسجد ہر قسم کی سہولتیں حاصل تھیں۔ پجاری اور پیش امام کو فیاکٹری کی طرف سے تنخواہ دی جاتی تھی لیکن چندرابابو نائیڈو نے اس اراضی کو ایس ٹی ایس سیز میں تقسیم کرکے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ دوسری طرف عادل آباد میں واقع سرپور کاغذ نگر ملز کا بھی بُرا حاصل ہے جو تقریباً بند ہوگئی ہے۔ اسے 1936 ء میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے قائم کیا تھا اور اس کا شمار ملک کی قدیم ترین پیپر ملز میں ہوتا ہے۔ حکومت اس بیمار فیاکٹری کے احیاء کی کوشش کررہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کتنی کامیاب رہتی ہے۔ اسی طرح حکومت نظام شوگر فیاکٹری کو اپنی تحویل میں لیتی ہے تو اس سے ہزاروں کسانوں اور مزدوروں کا فائدہ ہوگا۔