نظام دکن پر تنقیدیں و اعتراضات مسترد

حیدرآباد۔/20 جنوری(سیاست نیوز) سیما آندھرا عوامی قائدین کا آصف جاہی فرمانروانوں کے تئیں بغض و عناد آج کھل کر سامنے آگیا۔ ایوان اسمبلی میں تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کے دوران برسراقتدار کانگریس اور اصل اپوزیشن تلگو دیشم کے ارکان نے تقسیم ریاست کے مسئلہ پر حضور نظام کی شبیہہ بگاڑنے کی کوشش کی تاہم قائد مقننہ مجلس مسٹر اکبر الدین اویسی نے انہیں واضح جواب دیا۔ ایوان میں مباحث کے بعد مسلمانوں کا ایک بھرم بھی ٹوٹ گیا کہ آندھرا کے غیر مسلم عوامی قائدین کے باعث تلنگانہ کے فرقہ پرست ہندؤں کو سر ابھارنے کا موقع نہیں مل رہا تھا مگر آج یہ بات عیاں ہوگئی کہ وہ کتنا بعض و عناد رکھتے ہیں۔ مسٹر اکبر اویسی نے کہا کہ علحدہ تلنگانہ کا مطالبہ اسلئے شدت اختیار کیا گیا کہ علاقہ کے عوام سے مسلسل ناانصافیاں روا رکھی گئیں۔ آزاد ہند کی تاریخ میں آندھرا پردیش کے تینوں حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ زیادہ ناانصافی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج تقسیم ریاست کے مسئلہ پر حضور نظام پر اعتراضات و تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آیا تقسیم ریاست کیلئے نظام ذمہ دار ہیں؟ اگر مباحث کا موضوع تبدیل نہیں کیا جاتا تو وہ بھی

آج حضور نظام کا دفاع کرنے کھڑے نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ تلنگانہ جدوجہد میں 4-5 ہزارافراد کے قتل کی دہائی دی گئی ہے مگر حقیقت یہ ہیکہ پولیس ایکشن میں جو دراصل آپریشن پولو تھا پنڈت سندرلال رپورٹ کے مطابق 27-40 ہزار لوگ ہلاک کئے گئے۔ خواتین اپنی عصمتیں بچانے خودکشی پر مجبور ہوئیں۔ انہوں نے یہ وضاحت کی کہ چین سے جنگ کے موقع پر حضور نظام نے سرکاری خزانہ کی رقم نہیں بلکہ اپنی ذاتی رقم دی تھی۔ دو لاری سونا اور 9 کروڑ روپے کے ڈیفنس بانڈس دئیے ۔ انہوں نے حضور نظام کے سیکولرزم کی مثالیں دیتے ہوئے بتایا کہ نظام نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو 10 لاکھ روپے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 5 لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا۔ سر سید احمد خان نے جب ان سے سوال کیا تو تو حضور نظام نے ان سے کہا تھا کہ اس ملک میں اکثریت ہندؤں کی ہے۔ یہ حقیقی سیکولرازم۔ مجلسی قائد نے کہا کہ یہی نہیں بلکہ بھدراچلم مندر کو 50,000 روپئے، تروپتی مندر کو 18,000 روپے قدیم ہندؤ عمارات پر کتاب کی اشاعت کیلئے تلگو اکیڈیمی کو 50,000 روپے عطیہ دیا تھا۔ جب اکبر اویسی، آصف جاہی حکمراں کے کارنامے پیش کررہے تھے تو برسر اقتدار بنچوں سے ان کی تقریر کو ملک دشمن تقریر قرار دیا جانے لگا جس پر انہوں نے استفسار کیا کہ آیا یہ ملک دشمنی کیسے ہوسکتی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ حضور نظام کے پاس سرکردہ ہندو جیسے مہاراجہ کشن پرشاد، سروجنی دیوی، راجہ لال دین دیال اور دیوان جی تھے۔