نسبت ِمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان

ابوزاہد شاہ سید وحید اللّٰہ حسینی

دورِ حاضر کے سائنسی انکشافات و ایجادات انسانی فہم کی بلند پروازی اور شعوری بالیدگی کا نتیجہ ہیں کہ ایک نوعمر لڑکا جب مَوز کو کِلِک کرتا ہے تو ساری دنیا میں ہونے والے واقعات اس کی نظر کے سامنے آجاتے ہیں۔ لیکن جب اسی انسان کے حالات و کیفیات اور اوصاف و خصوصیات سے بندگی کا عنصر نکل جاتا ہے اور وہ اپنے تخلیقی مقصد کو فراموش کردیتا ہے تو بصیرت نظر اور وسعت نگاہ سے یکسر محروم ہو جاتا ہے اور اس کا طرز تعلیم اور انداز تحریر و تقریر تنگ نظری کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر یہی انسان سطوت و شوکت اور بام عروج سے پھسل کر اسفل سافلین کی پستی میں پہنچ جاتا ہے، یعنی وہ شیطانی وساوس، نفسانی خواہشات، دنیا طلبی اور مفاد پرستی کے دَلدل میں دَھنستا چلا جاتا ہے اور بدعقیدگی و بے عملی اس کا مقدر بن جاتا ہے۔
شاہِ امم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل عرب کے باشندے بدترین حالات سے گزر رہے تھے، جس کی طرف قرآن حکیم نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا: ’’یقیناً بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول ان ہی میں سے، پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں اور پاک کرتا ہے انھیں اور سکھاتا ہے انھیں قرآن اور سنت، اگرچہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے‘‘ (سورہ آل عمران۔۱۶۴) یعنی جب عرب کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ ہوچکی تھی، تہذیب مرچکی تھی، ثقافت مٹ چکی تھی، انسانیت دَم توڑ چکی تھی، ایسے پُرفتن و پُرخطر حالات میں محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء والمرسلین، رحمۃ للعالمین، امام الحرمین اور صاحب قبلتین بن کر تشریف لائے اور ایک قلیل مدت میں انسان کو پستیوں سے نکال کر اعلیٰ علیین کی بلندیوں پر فائز فرمادیا۔
خالق کونین نے قرآن پاک میں اپنے بندوں کو حکم دیا کہ دنیوی عیش و عشرت میں بدمست ہوکر اُخروی زندگی کو فراموش نہ کرو، بلکہ دنیا کا استعمال اتنا ہی کرو، جتنی تمھیں ضرورت ہو۔ چوں کہ اخروی زندگی دائمی و ابدی ہے، اسی لئے جنت کی طرف لے جانے والی راہ میں سبقت اختیار کرو، جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے اور اپنی تمام تر قوت و صلاحیت اور توانائی صرف اس کے حصول کے لئے خرچ کرو، لہذا ہم پر لازم ہے کہ لہو و لعب میں اوقات ضائع کرنے کی بجائے آخرت کو سنوارنے والے اعمال کریں۔ پھر جب گنہگار انسان اپنے ذہن و دماغ، قوت علمیہ، قوت عملیہ اور قوت نظریہ کو اسوۂ حسنہ کے مطابق استعمال کرنے کا عہد کرلیتا ہے تو وہ خیر امت کے لقب سے ملقب ہو جاتا ہے۔
جب تک انسان دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ نہیں ہوا تھا، اس وقت تک وہ جانور نما بلکہ جانور سے بدتر حالت میں تھا، لیکن جب اس کی نسبت نعلین پاک مصطفیﷺ سے ہو گئی تو رب ذوالجلال نے کائنات کی طاقتور ترین غیبی طاقتیں یعنی قدسی صفات مقرب ملائکہ کو بھی اس کے حق میں عفو و رحمت کی التجا اور دعائے مغفرت پر مامور کردیا، جیسا کہ اس آیت پاک سے مترشح ہے: ’’جو فرشتے اُٹھائے ہوئے ہیں عرش کو اور جو عرش کے اردگرد (حلقہ زن) ہیں، وہ تسبیح کرتے ہیں حمد کے ساتھ اپنے رب کی اور ایمان رکھتے ہیں اس پر اور استغفار کرتے ہیں ایمان والوں کے لئے‘‘۔ (سورۃ المؤمن۔۷)
چوں کہ دنیا دارالمحن و دارالبلا ہے، اسی لئے یہاں ہر قدم پر انسان کو مشکلات اور حوادثات کا سامنا کرناپڑتا ہے، جس کے سبب بسا اوقات انسان کوئی کام کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار جاتا ہے، یا پھر وہ کام کرگزرتا ہے تو اس کا منفی نتیجہ نکلنے پر انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کی ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے، جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، لیکن نسبت مصطفیﷺ کی برکتوں کا اندازہ کیجئے کہ وہ شخص جو حبیب کردگار صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرلیتا ہے، رب کائنات اس کو خوش خبری دے رہا ہے کہ اب تمھیں نہ تو ہمت ہارنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی حزن و ملال تمہارے دامن گیر ہو سکتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اور نہ (تو) ہمت ہارو اور نہ غم کرو اور تمھیں سربلند ہوگے اگر تم سچے مؤمن ہو‘‘۔ (سورہ آل عمران۔۱۳۹)
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کرم سے وابستہ ہونے سے قبل میرے گھر کی مالی حالت انتہائی خستہ تھی، لیکن جب میں دامن مصطفیﷺ سے وابستہ ہوئی تو میرے گھر کی تنگدستی خوشحالی میں بدل گئی اور میرا پورا خاندان مشرف بہ اسلام ہونے کی لازوال نعمت سے مالا مال ہو گیا‘‘۔ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نسبت مصطفیﷺ کے باعث انسان دینی و دُنیوی کامیابی و کامرانی کا مستحق بن جاتا ہے اور جو لوگ غلامی مصطفیﷺ کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں، ان کی اقبال مندی و ظفریابی کا زمانہ لازوال ہوتا ہے، یعنی جب تک انسان کی نسبت محبوب کردگار صلی اللہ علیہ وسلم سے برقرار رہے گی، اس وقت تک اس پر زوال کا سایہ بھی نہیں پڑسکتا۔ روایت میں یہاں تک آیا ہے کہ ’’غلامانِ مصطفیﷺ جب تک اس روئے زمین پر آباد رہیں گے، قیامت بھی برپا نہ ہوگی‘‘ اور یہ تمام فضیلتیں مؤمن کو صرف نسبتِ مصطفیﷺ کی وجہ سے حاصل ہیں۔