نریندر مودی کی بوکھلاہٹ

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
نریندر مودی کی بوکھلاہٹ
بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی وزارت عظمی کی کرسی حاصل کرنے کیلئے ہر سطح سے گرتے جارہے ہیں اور وہ یہ تاثر بھی دیتے جا رہے ہیں کہ وہ ایسے کسی شخص کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں جو انہیں قبول نہ کر پائے ۔ وہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے اور اب خود اپنی پارٹی میں بھی ایسے عناصر کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں جو کسی موقع پر ان کی مخالفت کرچکے ہیں۔ اس فہرست میں ایل کے اڈوانی ‘ جسونت سنگھ ‘ مرلی منوہر جوشی کے نام شامل ہوگئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ دنوں میں اس فہرست میں سشماسواراج کا نام بھی شامل ہوجائے ۔ یہ تو خیر بی جے پی کے داخلے معاملے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں پر تنقیدوں میں مودی تمام حدوں کو پار کرتے جارہے ہیں۔ اس سے اقتدار کیلئے ان کی لالچ کا پتہ چلتا ہے ۔ انہوں نے اب تک عام آدمی پارٹی کو ایک چیلنج کیلئے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا تاہم جب عام آدمی پارٹی سربراہ اروند کجریوال نے بنارس سے مودی کے خلاف چناؤ لڑنے کا اعلان کیا اور مودی کو کھلے مباحث کا چیلنج کرتے ہوئے کچھ مسائل اٹھائے تو اچانک ہی کجریوال مودی کیلئے ملک دشمن اور پاکستان کے ایجنٹ ہوگئے ۔ انہوں نے اروند کجریوال کو AK 49 قرار دیدیا ۔ اے کے مراد اروند کجریوال اور 49 سے مراد ان کے دہلی میں اقتدار کے 49 دن تھے ۔ انہوں نے وزیر دفاع مسٹر اے کے انٹونی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بھی پاکستانی ایجنٹ اور ملک دشمن قرار دیا ۔ ان کا یہ انداز اور طرز عمل ان کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سارے ہندوستان میں صرف وہی ہیں جو ملک کے مفاد کا تحفظ کرسکتے ہیں اور اس ملک کو ترقی دلاسکتے ہیں۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف الزام ترشایوں کا سہارا لیا ہے اور ان کا یہ طریقہ ان کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرنے والا اور انتہائی مذموم کہا جاسکتا ہے۔ اس سے نریندر مودی کے ذہنی دیوالیہ پن اور سیاسی بوکھلاہٹ کا اظہار ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی یا اس کے سربراہ اروند کجریوال سے خوف کا شکار ہوگئے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وارناسی کے علاوہ گجرات کے ایک حلقے سبھی چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
عام آدمی پارٹی نے گجرات کی ترقی کے جھوٹے اور بے بنیاد دعووں کاجو بھانڈا پھوڑا تھا اس سے مودی اور بی جے پی چراغ پا ہیں۔ ان سے یہی امید کی جا رہی تھی کہ وہ کجریوال اور عام آدمی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے تاہم اس حد تک گر کر الزامات عائد کرنا کسی سیاسی لیڈر کیلئے ٹھیک نہیں ہے اور خاص طور پر کسی ایسے لیڈر کیلئے جو ملک کی وزارت عظمی کی کرسی کا دعویدار ہو اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کرسی پر اسی کا حق ہے اور دوسروں کو اس سے سوال کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے ۔ حکومت گجرات نے ادعا کیا ہے کہ گجرات میں گذشتہ دس سال میں صرف ایک کسان نے قرض کے بوجھ سے تنگ آکر خود کشی کی ہے جبکہ عام آدمی پارٹی نے ثبوتوں اور دستاویزات کے ساتھ کہا ہے کہ صرف 2012 میں گجرات میں سینکڑوں کسانوں نے قرض کے بوجھ سے تنگ آکر خود کشی کرلی ہے ۔گجرات میں بے شمار صنعتوں کو بند کردیا گیا ہے اور چھوٹی صنعتوں کو بند کرتے ہوئے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی مدد کی جا رہی ہے ۔ ان گھرانوں کو کسانوں کی زمینیں حاصل کرتے ہوئے حوالے کی جا رہی ہیں۔ ان سے انتہائی معمولی قیمتیں وصول کرکے کسانوں کو بیروزگاری کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ ترقی کے سلسلہ میں جو دعوے کئے جا رہے ہیں وہ جھوٹے اور بے بنیاد ہیں ۔ گجرات کے دواخانوں میںمریضوں کی صورتحال انتہائی ابتر ہے وہاں مریضوں کو ادویات تک دستیاب نہیں ہیں اور ڈاکٹرس کی لاپرواہیاں ایک عام شکایت ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نریندر مودی یا پھر بی جے پی ‘ اروند کجریوال اور ان کی پارٹی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب دیتے ۔ اپنے دعووں کی تائید میں کوئی ثبوت یا دستاویز پیش کرتے لیکن ایسا کرنے کی بجائے صرف جوابی وار کیا گیا اور وہ بھی انتہائی اوچھے انداز سے ۔ یہ سیاسی دیوالیہ پن اور انتخابات کی لڑائی میں کہیں نہ کہیں پیچھے رہ جانے کا اندیشہ تھا جس کی وجہ سے انہیں سیاسی مخالف سمجھنے کی بجائے ملک دشمن اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دینے تک سے گریز نہیں کیا گیا ۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ احمد آباد سے دہلی تک کے سفر میں نریندر مودی کسی رکاوٹ یا مخالفت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو وہ اسے پاکستانی ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ اس سے ملک کے عوام اور جمہوری عمل کے تئیں نریندر مودی کے عدم احترام کا پتہ چلتا ہے اور وہ صرف مطلق العنانی اور آمرانہ طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے اس ملک پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں جس دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔