نریندر مودی کتنے بااثر

وزیر اعظم نریندر مودی نے حال میں ایک بیان دیا کہ وہ ایسی سیاست کے مخالف ہیں جس کے ذریعہ مختلف طبقات کے عوام کے مابین دوریاں پیدا ہوتی ہوں یا اختلافات کو فروغ حاصل ہوتا ہو۔ ویسے بھی جب سے نریندر مودی وزارت عظمی پر فائز ہوئے ہیں وہ اس طرح کے بیانات دیتے آر ہے ہیں۔ وہ مسلسل یہ کہتے آر ہے ہیں کہ ملک میں نفاق پیدا کرنے والی سیاست کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور ان کی حکومت کسی بھی طبقہ کے خلاف اس مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتے گی ۔ نریندر مودی اس سلسلہ میں ملک کے دستور کا بھی حوالہ دیتے ہیں اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ملک کے دستور میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور ان کی حکومت دستور میں فراہم کردہ گنجائش کا احترام کیا جائیگا ۔ نریندر مودی کے ساتھ ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی مسلسل یہ بیان دیتے جا رہے ہیں کہ این ڈی اے حکومت امتیاز والے رویہ کی مخالف ہے اور کسی کے ساتھ امتیاز برتنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ گذشتہ دنوں وزیر اعظم نے یہ بیان دیا کہ ان کی حکومت ایسی سیاست کی مخالف ہے جو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین دوریاں پیدا کرتی ہے ۔ ان کا یہ بیان بڑا دلخوش کن کہا جاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خود مودی کے بیانات کس حد تک اثر انداز ہو رہے ہیں اور وہ دوسری تنظیموں اور جماعتوں تو کیا خود اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ پر بھی اثر انداز ہونے میں ناکام ہوئے ہیں۔ نریندر مودی کے بیان کے دوسرے ہی دن پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ونئے کٹیار نے پھر رام مندر مسئلہ کو اٹھانے کی کوشش کی اور خود مودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ رام مندر کی تعمیر کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز کرے ۔ ان کا کہنا تھا کہ حالانکہ بی جے پی کو مرکز میں رام مندر کے نعرہ پر اقتدار حاصل نہیں ہوا ہے لیکن اسے اپنا یہ بنیادی مسئلہ فراموش نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے قانون سازی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے یا پھر مذاکرات سے اس مسئلہ کو حل کیا جانا چاہئے ۔ حالانکہ یہ مسئلہ عدالت میں زیر دوران ہے اس کے باوجود ایک برسر اقتدار پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کی جانب سے اس طرح بیان بازی غیر ضروری ہی کہی جاسکتی ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وزیر اعظم نے ایک ایسا بیان دیا ہو جس کا مقصد ان کی اپنی شبیہہ کو بہتر بنانا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی پہلا موقع نہیں ہے جب خود بی جے پی کے کسی لیڈر یا رکن پارلیمنٹ کوئی شرانگیزی نہ کی ہو ۔ ماضی میں ایک مرکزی وزیر نے رام زادے اور حرام زادے کا ریمارک کرکے خود حکومت کو پشیمان کردیا تھا ۔ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ مسلسل زہر افشانی کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی فرقہ پرست تنظیموں اورسنگھ پریوار کے قائدین مسلسل مسلمانوں اور ملک کی دوسری اقلیتوں کے خلاف بکواس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر نریندر مودی کے بیانات اور ان کے اعلانات اثر انداز بھی ہو رہے ہیں یا نہیں ؟ ۔ انتخابات سے قبل یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بی جے پی میں نریندر مودی حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہوں نے اسی تاثر کے تحت بی جے پی کے سینئر قائدین ایل کے اڈوانی ‘ مرلی منوہر جوشی اور دوسروںکو حاشیہ پر رکھد یا تھا ۔ تاہم انتخابات کے بعد اور اقتدار ملنے کے بعد مودی خود پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ اور دوسرے قائدین پر اثر انداز ہونے اور ان پر لگام کسنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ایک طرح کے بیانات دیتے ہوئے حکومت کے تئیں خیرسگالی کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو فوری فرقہ پرست ذہنیت کے حامل قائدین اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے اس کی نفی کرنے والے اور متنازعہ و شرانگیز بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔
یہ ایسی صورتحال جس پر خود بی جے پی ماضی میں تنقیدیں کر چکی ہے ۔ جس وقت یو پی اے کی حکومت تھی وزیر اعظم کے بیانات پر کوئی اثر نہ ہونے کا بی جے پی دعوی کرتی رہی ہے اور اس پر منموہن سنگھ اور کانگریس کو تنقید کا بھی نشانہ بناتی رہی ہے لیکن اب وہی صورتحال خود مودی کو درپیش ہے اور حکومت اس کا نوٹ نہیں لے رہی ہے ۔ وزیر اعظم ہوں یا وزیر داخلہ ہوں کسی کی بھی تنبیہہ کا فرقہ پرستوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے اور وہ اپنے زہریلے راگ الاپنے میں ہی مصروف ہیں۔ نریندر مودی یا راج ناتھ سنگھ کے بیانات اور فرقہ پرستوں کے ریمارکس سے یہ تاثر عام ہو تا جا رہا ہے کہ مودی کا خود اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ پر کوئی کنٹرول نہیں رہ گیا ہے ۔