نریندر مودی کا ترقی کا ایجنڈہ، سنگھ پریوار اور ہندوتوا کی فرقہ وارانہ منافرت !!

حیدرآباد ۔ 26 ستمبر (سیاست نیوز) تشکیل حکومت سے اندرون 100 یوم اچھے یا برے دن کا فیصلہ کرنا یا نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہے لیکن ان 100 ایام میں یہ اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں ہے کہ ملک کس راہ پر گامزن ہے۔ رکن پارلیمنٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ جناب محمد سلیم نے آج منعقدہ ایک اجلاس سے خطاب کے دوران یہ بات کہی۔ انہوں نے بتایا کہ نریندر مودی حکومت کے 100 دن پر فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے لیکن حالات پر باریک بینی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان 100 دنوں میں ملک بھر میں وقوع پذیر واقعات بالخصوص فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے والے بیانات و حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی ایک طرف ترقی کا ایجنڈہ پیش کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب سنگھ پریوار اور ہندوتوا کا نعرہ لگانے والی قوتیں ملک میں منافرت پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

جناب محمد سلیم نے گریٹر حیدرآباد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کی جانب سے سندریہ ویگنان کیندر باغ لنگم پلی میں منعقدہ سمینار بعنوان ’’اچھے دن کب اور کیسے‘‘ سے خطاب کے دوران کہا کہ ملک میں اچھے دن اس وقت آ سکتے ہیں جب غریب، اقلیت، پسماندہ طبقات کے علاوہ معاشرہ کے تمام انسانوں کی یکساں ترقی ممکن بنایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے 100 دنوں کے دوران جو کچھ ترقیاتی کام کا سہرا حکومت اپنے سر باندھ رہی ہے، وہ دراصل کافی پرانے ہیں۔ جناب محمد سلیم نے کہا کہ لداخ میں پاور پلانٹ کا افتتاح ہو یا کٹرا ریل لائن کا مسئلہ ہو یا پھر منگلائن کے مریخ میں کامیاب داخلہ کا مسئلہ ہو، ان تمام امور کا 100 روزہ حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن حکومت کی جانب سے یہ ٹرافیاں 100 دن کے شوکیس میں سجانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ رکن پارلیمنٹ سی پی ایم نے بتایا کہ نریندر مودی دراصل منزل اور ہدف کی نشاندہی کررہے ہیں لیکن راہ نہیں دکھا پارہے ہیں جس سے یہ واضح ہورہا ہیکہ جو دعوے کئے جارہے ہیں

وہ حقیقت میں پورے نہیں کئے جاسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی حکومت کو 100 دن میں پرکھنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن 100 دن کی یہ بیماری راجیو گاندھی نے ہندوستانی عوام کو دی ہے۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا تو یہ دعوے کئے کہ 100 دن میں مہنگائی ختم کردی جائے گی اور 1000 دن میں بیروزگاری کا خاتمہ ممکن بنایا جائے گا۔ جناب محمد سلیم نے بتایا کہ ہندوستانی جمہوریت میں عوام 5 سال کیلئے اقتدار کسی کو تفویض کرتے ہیں اور 5 سال میں برسراقتدار طبقہ کو اپنی صلاحیتیں دکھانی پڑتی ہیں لیکن نریندر مودی نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد جب عوام سے خطاب کیا تو انہوں نے 10 سال طلب کئے۔ اسی طرح جب وہ انتخابی مہم پر تھے تو انہوں نے 60 سال اور 5 سال کا محاسبہ کرنے کی دعوت دی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی شخصیت کو طاقتور پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ انہوں نے تاحال ملک کے عوام کیلئے کوئی ایسے اقدامات نہیں کئے ہیں جن کی ستائش کی جاسکے۔ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی وعدوں کو شادی سے پہلے کے وعدے قرار دیتے ہوئے کہا کہ چاند تارے توڑ لانے والی گفتگو انتخابات سے قبل ہوئی تھی اور انتخابات کے بعد نہ کوئی چاند تارے توڑ لانے کا مطالبہ کرے گا اورنہ وہ ایسا کریں گے۔ اس نفسیات کو بھارتیہ جنتا پارٹی اچھی طرح سمجھ چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتخابات سے قبل یہ کہا گیا 100 دن میں کالا دھن ملک واپس لایا جائے گا

لیکن انتخابات کے بعد اندرون 2 ماہ صرف ایک اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دیتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی گئی اور اب یہ کہا جارہا ہیکہ کالے دھن کی واپسی اتنا آسان نہیں ہے۔ جناب محمد سلیم نے بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دورحکومت میں ہوئے بجٹ سیشن اور پالیسی کے تعین کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ منصوبہ اور حکمت عملی کے اعتبار سے موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت یو پی اے 3 ثابت ہوگی۔ جو منصوبے یو پی اے نے تیار کئے تھے انہیں قابل عمل بنانے کیلئے موجودہ حکومت کوشش کرے گی۔ رکن پارلیمنٹ سی پی ایم نے ملک کی خارجہ پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان امریکہ اسرائیل اتحاد کی سمت رواں دواں ہے۔ اسی لئے غزہ میں انسانیت سوز حملوں کے باوجود ہندوستان کی جانب سے مذمت تو کجا مسئلہ پر مباحث تک نہیں کئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہند ۔ اسرائیل۔ امریکہ اتحاد کے فروغ کی کوششوں کا آغاز نرسمہا راؤ کے دورحکومت سے ہی ہوچکا تھا۔ جناب محمد سلیم نے بتایا کہ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے سیاست میں تشہیر کے رجحان کو فروغ دیتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور انتخابی تشہیر کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی نے بالواسطہ طور پر اپنے ہندوتوا ایجنڈہ کو بھی انتخابی موضوع بنایا ہے۔

جناب محمد سلیم رکن پارلیمنٹ سی پی ایم نے بتایا کہ نریندر مودی نے سردار پٹیل کے مجسمہ کی جو مہم شروع کی ہے اس کا ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی ہندوستان کی آزادی سے متعلق کوئی تاریخ نہیں رکھتی اسی لئے سردار پٹیل کے انتخاب کے ذریعہ وہ خود کو پٹیل سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے یوم آزادی کے موقع پر نریندر مودی کے خطاب کے دوران سبھاش چندر بوس اور مولانا آزاد کا تذکرہ نہ کئے جانے کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی جارہی ہیکہ ان کی سوچ کس جانب چل رہی ہے۔ سمینار کے آغاز سے قبل مولانا سید طارق قادری، مولانا سید حامد حسین شطاری اور جناب نعیم اللہ شریف نے وقف جائیدادوں کے علاوہ آئمہ و مؤذنین کی تنخواہوں کی اجرائی سے متعلق یادداشت حوالے کی۔ ابتداء میں کامریڈ ایم سرینواس نے مہمانوں اور شرکاء کا خیرمقدم کیا۔ اس موقع پر ایڈیٹر پرجاشکتی کامریڈ ایس ویریا اور دیگر موجود تھے۔