حیدرآباد /3 جون (سیاست نیوز) کانگریس کے رکن راجیہ سبھا ایم اے خان نے کہا کہ آر ایس ایس کے پرچارک نریندر مودی عوام کو تقسیم کرنے والی سیاست پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں، بلکہ اس کو فروغ دینے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا صرف مسلم دانشوروں اور علماء سے ملاقات، مسلم مسائل کا حل نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے انھیں ٹھوس اقدامات کرنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ ہریانہ کے حالیہ فسادات میں مسلمانوں پر ظلم ڈھایا گیا، ایک کمپنی نے صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک نوجوان کو ملازمت دینے سے انکار کردیا، ایک مسلم لڑکی کو ممبئی میں صرف مسلم ہونے کی وجہ سے مکان کرایہ پر نہیں دیا گیا، لیکن وزیر اعظم ہر معاملے میں خاموش رہے۔ انھوں نے وزیر اعظم سے استفسار کیا کہ اقلیتی بجٹ میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا؟، لو جہاد اور بیف پر امتناع جیسے مسائل پر وہ خاموش کیوں رہے؟۔ انھوں نے کہا کہ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضاء پیدا کی جا رہی ہے، مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے اور سادھو سنتوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلا جا رہا ہے، اس کے باوجود وزیر اعظم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، جب کہ ان حالات میں عملی اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ این ڈی اے کا ایک سالہ دور حکومت اقلیتوں کے لئے مایوس کن رہا، جب کہ ہندوتوا طاقتوں نے اس حکمرانی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ہراساں و پریشان کیا ہے، جس سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ انھوں نے مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا کہ مسلمانوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے عملی اقدامات نہیں کئے گئے، جب کہ اقلیتوں کو اعتماد میں لینے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جس کا وزیر اعظم کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔