نرمل 9 فبروری (جلیل ازہر کی رپورٹ) یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ ملک میں عین انتخابات سے قبل قیادت رویہ میں تبدیلی لالیتی ہے لیکن مزاج میں تبدیلی پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے۔ گجرات کے دریائے سابرمتی کے کنارے مسلم تجارتی کانفرنس میں چیف منسٹر نریندر مودی کا لب و لہجہ ’’کیا آواز میں خوشی کم مجبوری زیادہ کے مترادف تو نہیں‘‘ اس لئے کہ آج ہر خاص و عام کی سیاسی حالات پر نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ ٹی وی پر مودی کی تقریر کے ساتھ ہی عوام بالخصوص اقلیتوں میں ان کی تقریر کے چرچے سنائی دے رہے ہیں۔ آج اخبارات کا بھی بہت دلچسپی سے مطالعہ کرتے ہوئے قارئین کو دیکھا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی بدل گئے یا حالات نے انھیں بدل دیا۔ کیوں سیاسی قد کم کرتے ہوئے آج مسلمانوں کی فکر کرنے والے نریندر مودی کے رنگ بدلنے سے حالات نہیں بدل سکتے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ظالم خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اس کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ طبقات میں انتشار کا سنگ بنیاد رکھنے والے ہی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ایک صحتمند معاشرہ صرف تمام طبقات کو یکجا کرتے ہوئے ہی تشکیل دیا جاسکتا ہے‘‘۔ دنیا جانتی ہے کہ بے وفا کے دل میں غم دیر تک نہیں رہتا۔
مزاج کی تبدیلی تمام طبقات سے اچانک ہمدردی وزارت عظمیٰ کی خواہش کا نتیجہ ہے؟ سارا ملک جانتا ہے کہ گجرات کے لیڈر کا کل کیسا تھا، آج انتخابات کا مانسون ملک پر منڈلا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کی فکر کم اپنی کرسی کی فکر زیادہ کررہی ہیں لیکن یہ کڑوا سچ ہے کہ اب رائے دہندوں میں کافی شعور آگیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملک ہو یا ریاست حکمرانی کس ہاتھ میں دی جائے آنے والے انتخابات ملک کے مقدر کا فیصلہ کریں گے اس لئے کہ اکثریت ملک کے سیکولرازم کی حامی ہے۔ کوئی نہیں چاہتا نہ ہی کوئی مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ انسانیت داغدار ہونے کا کام مت کرو چند مٹھی بھر اپنے ناپاک عزائم کے ذریعہ ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم قانون کا آہنی پنجہ ان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے متحرک ہو تو کوئی بھی حالات کو نہیں بگاڑ سکتا۔ تاہم آج اکثر مقامات پر نریندر مودی کی حالیہ تقریر زیربحث رہی۔ ویسے
لوٹ کر نہیں آتا قبر سے کوئی لیکن
پیار کرنے والوں کو انتظار رہتا ہے
اس طرح چیف منسٹر وزیراعظم بننے کا انتظار کررہے ہیں۔