نربھئے کیس ‘ سزائے موت کی برقراری

ذہنیت بدل کر ہی انسداد ممکن ہے
صرف ان سزاؤں سے جرم کم نہیں ہوتے
نربھئے کیس ‘ سزائے موت کی برقراری
سال 2012 کے آخری ایام میں پیش آنے والے عصمت ریزی کے واقعہ میں ‘ جسے بعد میں چل کر نربھئے ‘ کا نام دیا گیا تھا ‘ سپریم کورٹ نے چار ملزمین کی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے ۔ یہ واقعہ 16 ڈسمبر 2012 کو پیش آیا تھا ۔ دارالحکومت دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میںچار افراد نے ایک نوجوان لڑکی کی عصمت ریزی کی تھی اور اسے اس قدر اذیتیں دی گئی تھیں کہ وہ لڑکی کئی دن تک کوما میں رہنے اور بیرون ملک علاج کروانے کے باوجود زندگی کی جنگ ہار کر موت کے منہ میں چلی گئی تھی ۔ اس واقعہ نے سارے ملک کو دہلا کر رکھ دیا تھا اور ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا اور خاطیوں کو سخت سے سخت سزائیں دینے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا گیا تھا ۔ دہلی پولیس نے عوامی موڈ اور ذرائع ابلاغ کی مسلسل تنقیدوں کے بعد خاطیوں کو گرفتار کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور عدالت میں اس کی تیز رفتار سماعت کرتے ہوئے بالآخر خاطیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی ۔ خاطیوں کی جانب سے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی ۔ ہائیکورٹ نے زیریں عدالت کی جانب سے کئے گئے فیصلے کو برقرار رکھا اور سزا پر نظر ثانی کرنے ملزمین کی اپیل کو مسترد کردیا ہے ۔

ہائی کورٹ نے آج اپنی رولنگ میں کہا کہ یہ جرم شاذ و ناذر پیش آنے والے واقعات میں شامل ہے اس لئے خاطیوں کو سزائے موت کا فیصلہ درست ہے جسے برقرار رکھا جاتا ہے ۔ یہ سزا ایسے وقت میں سنائی گئی ہے جبکہ ملک میں کئی گوشوں کی جانب سے سزائے موت کو ختم کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں کو دی گئی سزائے موت پر بھی سیاسی لڑائی چل رہی ہے ۔ اس کے علاوہ کئی دوسروں کی سزائے موت پر بھی تنازعہ ہے ۔ بعض سزایافتگان کی درخواست رحم صدر جمہوریہ کے پاس زیر التوا ہیں۔ تاہم متاثرہ لڑکی کے افراد خاندان نے عدالت کے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ انہیں ہمیشہ ہی سے عدلیہ پر یقین تھا اور اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہوا ہے ۔ تاہم متاثرہ لڑکی کے والدین کا کہنا ہے کہ انہیں پورا انصاف اسی وقت مل سکتا ہے جب سزا یافتگان کو واقعتا پھانسی پر لٹکا دیا جائیگا ۔ پانچواں ملزم کم عمر ہے جس کی وجہ سے اسے تین سال قید کی سزا پہلے ہی سنائی گئی ہے ۔

یقینی طور پر ہائیکورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے ۔ اس انسانیت سوز جرم کے خلاف جتنی سخت کارروائی ہوسکتی ہے وہ کی جانی چاہئے تاہم اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ سب کچھ صرف مجرمین کو ختم کرسکتا ہے لیکن جرم کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے یہ جرم ختم ہوسکے ۔ اس کیلئے سماجی سطح پر مہم چلانے کی اور عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کیلئے حکومت کو غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر سارے ملک میں رائے عامہ بیدار کرنا چاہئے ۔ سماج میں خواتین کی عزت و مقام سے واقف کروانا چاہئے ۔ انہیں رشتوں کے تقدس اور عورت کے احترام سے واقف کروانے کی ضرورت ہے ۔ جب تک سماجی سطح پر تبدیلی نہیں آتی یا پھر سماج میں خواتین کے تئیں عزت و احترام پیدا نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس طرح کے جرائم کا روک تھام ممکن نہیں ہے ۔ ہم موجودہ حالات میں مجرم کو سزا تو دیتے ہیں لیکن جرم کی روک تھام کیلئے کچھ بھی نہیں کیا جاتا ۔ جڑ کو باقی رکھا جاتا ہے اور درخت کو کاٹ دیا جاتا ہے ۔ یہ عمل ثمر آور یا سودمند نہیں کہا جاسکتا ۔ جس وقت دہلی میں یہ واقعہ پیش آیا تھا اس وقت سارے ملک میں عوامی بے چینی پیدا ہوئی تھی اور میڈیا نے بھی شور شرابہ کیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس واقعہ کے بعد عصمت ریزی کے واقعات پیش نہیں آئے ؟ ۔

دہلی عصمت ریزی واقعہ کے بعد بھی ملک بھر میں اور خود دہلی میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ میڈیا کسی ایک واقعہ کو اچھال کر اس تعلق سے تو عوام میںبحث کا موضوع فراہم کردیتا ہے لیکن ایسی ہزاروں خواتین اور لڑکیاں ہیں جو اس طرح کے مظالم سہنے کے بعد انصاف کی طلبگار ہیں ۔ کئی تو ایسی ہیں جن کی شکایتیں تک درج نہیں ہوتیں۔ ہم ان تمام واقعات کی روک تھام کیلئے کیا کچھ کرتے ہیں وہ اہمیت کا حامل ہے ۔ محض مجرمین کو سزا دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کردینا یا خود کو بری الذمہ سمجھنا درست نہیں ہوسکتا ۔ اس کام کیلئے جہاں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے وہیں خواتین کی تنظیموں کو بھی اہم رول ادا کرنا ہوگا ۔ ان تنظیموں کو سماج میں خواتین کے تئیں عزت و احترام کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے مہم چلانی ہوگی ۔ خود خواتین میں بھی سماج کے تئیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ تہذیبی اقدار کا پاس و لحاظ کرنے خواتین پر اثرا نداز ہوا جاسکتا ہے کیونکہ تہذیب و تمدن اور اخلاقیات و اقدار کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے بھی اس طرح کے انسانیت سوز واقعات کا تدارک کرنا ممکن ہوسکتا ہے ۔