ندامت کے آنسو

راشد اور ظفر کالج میں داخل ہوئے اسکول میں دونوں بہترین دوست ہوا کرتے تھے، مگر کالج میں راشد نے ظفر کا ساتھ چھوڑ دیا اور چند آوارہ لڑکے اس کے دوست بن گئے۔ راشد ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے لگا۔ وہ کالج آتا مگر کلاسیس اٹینڈ نہ کرتا ظفر ہمیشہ اسے سمجھاتا اور اس سے کہتا کہ راشد تم اپنے گھر کے حالات جانتے ہو۔ گھر والے تمہیں کتنی مشکل سے پڑھا رہے ہیں۔ سب تم سے اُمیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں، تم پڑھ لکھ کر ان کی اُمیدیں پوری کرو، تم کیوں ایسے آوارہ لڑکوں کے ساتھ رہ کر اپنا وقت ضائع کررہے ہو۔
ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ، راشد کو ظفر کی باتیں بُری لگتیں ، اس نے ظفر سے قطع تعلق کرلیا۔ راشد انہی لڑکوں کے ساتھ رہتا اب تو اس نے نشہ بھی کرنا شروع کردیا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد ظفر کو پتہ چلا کہ راشد نے کالج چھوڑ دیا ہے۔ ظفر نے انٹر کے بعد کمپیوٹر کورس کرلیا اور ایک ادارے میں نوکری کرلی۔ اپنی قابلیت کی وجہ سے وہ ترقی کرتا گیا، اسے ادارے کی طرف سے گھر اور گاڑی بھی مل گئی۔ دوسری طرف راشد نشہ کرنے لگا، والدین نے تنگ آکر اسے گھر سے نکال دیا۔

ایک دن ظفر اپنی گاڑی میں شاپنگ کیلئے جارہا تھا کہ راستے میں اس کی گاڑی خراب ہوگئی۔ وہ گاڑی میکانک کو ڈھونڈنے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ اسے ایک فقیر نظر آیا جو لوگوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔ ظفر کو محسوس ہوا جیسے وہ اسے جانتا ہے مگر یہ کون ہے۔ وہ اسے پہچان نہیں پا رہا تھا۔ اس نے ظفر کے آگے ہاتھ پھیلائے اور کہنے لگا کہ کچھ دو میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا، میری مدد کرو، آواز سن کر ظفر پہچان گیا کہ یہ تو راشد ہے۔ وہ ہاتھ پکڑ کر اسے ایک ہوٹل میں لے گیا۔ کھانا کھلایا اور کہا کہ میں ظفر ہوں، تمہارا دوست۔ راشد نے اسے پہچان لیا اور اس کے گلے لگ کر بہت رویا اور کہنے لگا میں نے تمہاری نصیحت پر عمل نہیں کیا اور نہ ماں باپ کی مانی، اس لئے اللہ نے مجھے سزا دی۔ کئی سال ہوگئے، میں نے گھر چھوڑ دیا۔ اب تو مجھے گھر والوں کی کوئی خبر نہیں، نہ جانے وہ کہاں اور کس حال میں ہوں گے۔ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ظفر اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔ اس نے راشد کو رات کا کھانا کھلایا۔ کپڑے دیئے۔ ساتھ ہی کچھ پیسے دے کر رخصت کیا۔ راشد کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے۔ جاتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ میں اگر ظفر اور ماں باپ کی بات مان لیتا اور ان کی نصیحت پر عمل کرتا تعلیم حاصل کرتا تو آج بڑا آدمی ہوتا، میرا بھی نام ہوتا ، لیکن وقت گزر چکا تھا۔ اب رونے سے کیا حاصل؟ بچو! اگر کوئی نصیحت کرے تو اسے مان لیں، بُرے لوگوں کی دوستی سے بچنا چاہئے ، ورنہ انسان تباہ برباد ہوجاتا ہے۔