جب مکہ مکرمہ میں لوگ اسلام کے حق پسندانہ پیغام سے متاثر ہوکر دامن اسلام سے وابستہ ہونے لگے، جن میں بطور خاص نوجوانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد تھی، جس کی بناء کفار مکہ ظلم و زیادتی پر اُتر آئے اور اپنے نو عمر رشتہ داروں کو طرح طرح سے ایذائیں دیں، مارا، پیٹا، بیڑیاں لگاکر قید کیا۔ تپتی ہوئی ریت پر برہنہ جسم گھسیٹا، بے چھت کے کمروں میں بند کیا۔ غلام، باندی اور آزاد مرد و خواتین کو بے انتہاء تکلیفیں دیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حبشہ (ایتھوپیا) جانے کی صلاح دی اور فرمایا ’’وہاں ایک نیک دل حکمراں ہے، جس کے پاس حق کا پاس و لحاظ ہے، کسی پر ظلم نہیں ہوتا، وہاں رہو تاآنکہ اللہ تعالی تمہارے لئے کوئی چھٹکارے کی صورت پیدا فرمادے‘‘۔
چنانچہ گیارہ یا بارہ مسلم مردوں اور چار یا پانچ مسلم خواتین کی پہلی جماعت، جس میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر مبارک حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا شامل تھیں، حبشہ کا رخ کیا، بعد ازاں مزید کچھ لوگ روانہ ہوئے۔ یہ جماعت ایک افواہ کی بناء کچھ عرصہ بعد واپس آگئی، مگر جب اذیت رسانی شدت اختیار کر گئی تو آپﷺ کی اجازت سے ۸۳ مسلمانوں نے، جن میں گیارہ قریشی خواتین نے بھی شامل تھیں، حبشہ کو ہجرت کی۔ ان میں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے، ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط بنام نجاشی دیا۔ غالباً یہ خط ان کو بطور تعارف وسفارش دیا گیا تھا۔ (الوثائق السیاسیہ، مؤلف ڈاکٹر محمد حمید اللہ)
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں، جو ہجرت کے ۳۴سال قبل پیدا ہوئے۔ ان کے اسلام لانے سے متعلق مقبول ہے کہ ابوطالب نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ حضرت علی سیدھے جانب تھے تو ابو طالب نے حضرت جعفر سے فرمایا ’’تم اپنے چچازاد بھائی کے بازو نماز پڑھو (یعنی ان کے بائیں جانب نماز پڑھو)‘‘۔ اس طرح آپ نے اسلام قبول کیا۔ آپ سے پیشتر ۳۱ افراد مسلمان ہوچکے تھے۔ آپ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ اس طرح دو ہجرتیں کیں۔ مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان مواخاۃ یعنی بھائی کا رشتہ بنایا۔ آپ بڑے رحمدل، سخی اور غریب پرور تھے، گھر میں جو ہوتا مساکین کو دیا کرتے، اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کنیت ابوالمساکین رکھی۔ آپ نہایت دلیر اور بہادر ہونے کے ساتھ زیرک، معاملہ فہم اور حکیم و دانا تھے۔ جب مسلمان حبشہ میں رہائش پزیر ہوئے تو کفار مکہ کو تکلیف ہوئی۔ انھوں نے حبشہ کے مہاجرین کو مکہ مکرمہ واپس لانے کے لئے دو افراد عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص کو شاہ حبشہ کے پاس قیمتی تحائف کے ساتھ بھیجا۔ انھوں نے بادشاہ اور اس کے درباریوں کو اپنے گراں قدر تحائف اور چرب زبانی سے متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور بادشاہ سے کہا ’’یہ ہمارے باندی اور غلام بے دین ہوکر یہاں پناہ گزیں ہوئے ہیں‘‘۔ بادشاہ کو بھی تعجب ہوا کہ نہ وہ اپنے آبا و اجداد کے دین پر ہیں اور نہ ہی بادشاہ کے دین و مذہب کو قبول کیا، آخر وہ کس مذہب کے پیروکار ہیں۔ بادشاہ نے کسی فیصلہ سے قبل اہل اسلام کی بات سننا مناسب سمجھا۔ اس موقع پر حضرت جعفر بن ابی طالب نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے حکمت و دانائی کا مظاہرہ فرمایا، جس کی وجہ سے کفار مکہ کے سارے ارادوں پر پانی پھر گیا اور بادشاہ حبشہ اور اس کے دربار میں انقلاب آگیا۔
واضح رہے کہ اظہار حق میں صرف بے باکی مطلوب نہیں ہوتی، بلکہ بے باکی کے ساتھ حکمت و دانائی کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے اور حکمت ہی سے عقل و قلب کی گرہیں کھلتی ہیں۔ حکمت کے یوں تو بہت سے معانی بیان کئے گئے ہیں، مگر مگر ابو حبان اندلسی صاحب البحر المحیط کی یہ تشریح عام طورپر قبول کی جاتی ہے کہ ’’حکمت سے مراد ایسا کلام یا سلوک ہے، جس میں اکراہ کا پہلو موجود نہ ہو اور طبع انسانی اسے فوراً قبول کرلے اور وہ عقل و قلب ہر دو کو متاثر کرے‘‘۔ اس طرح حکمت اس درست کلام اور مؤثر طرز ابلاغ کا نام ہے، جو انسان کے دل میں اتر جائے اور مخاطب کو مسحور کردے۔
حضرت جعفر بن ابی طالب نے نجاشی کے دربار میں پراثر تقریر کی اور اپنی تقریر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا اور کلام کا ہر جز اپنے مقصد و معنی پر جامع و محیط تھا۔ آپ نے پہلے حصہ میں زمانہ جاہلیت کی مذموم حالت و کیفیت کو اس طرح بیان کیا۔’’اے بادشاہ! ہم جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، رشتے ناطوں کو توڑتے تھے، پڑوسیوں سے برا سلوک کرتے تھے، ہم میں کا طاقتور کمزور و ضعیف کو کھا جاتا تھا‘‘۔ پس آپ نے ابتدا میں زمانہ جاہلیت کی ان برائیوں اور خامیوں کا ذکر کیا، جن کو عقل سلیم اور طبع مستقیم قبول نہیں کرسکتی تھی۔زمانۂ جاہلیت کی برائیوں کا مختصر نقشہ کھینچنے کے بعد آپ نے فرمایا ’’ہم اسی حالت پر تھے کہ اللہ تعالی نے ہماری طرف رسول کو بھیجا، جن کے حسب و نسب، سچائی، امانت اور پاکدامنی کے ہم سب قائل و معترف ہیں‘‘۔ چوں کہ عیسائی انبیاء کے اوصاف سے اچھی طرح واقف تھے، اس لئے نہایت خوش اسلوبی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کے پیغمبرانہ صفات کا ذکر کیا۔
پھر آپﷺ کی دعوت و تبلیغ، اسلام کے محاسن اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’پس آپﷺ نے ہم کو اللہ تعالی کی دعوت دی، تاکہ ہم اس کو یکتا جانیں اور اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں سے تراشیدہ معبودان باطل کو چھوڑدیں، جن کی ہم اور ہمارے آبا و اجداد پوجا کرتے تھے اور آپﷺ نے ہم کو سچائی، امانت کی ادائیگی، صلہ رحمی، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک، حرمتوں کو پامال کرنے اور قتل و خون سے رکنے کا حکم دیا اور ہم کو فواحش، جھوٹ، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر تہمت باندھنے سے منع کیا اور ہم کو حکم دیا کہ ہم اللہ وحدہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ہم کو نماز، زکوۃ اور روزوں کا حکم دیا‘‘۔
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کی حقیقی تصویر کو پیش کیا، نہ جھوٹ کہا اور نہ مبالغہ سے کام لیا اور نہ بڑھا چڑھاکر پیش کرنے کی کوشش کی، یعنی سادگی سے اسلام کی تصویر کو پیش کردیا۔ حق کے ظاہر ہونے کے بعد حق کو قبول کرنا ہی اہل حق کا فریضہ ہے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’پس ہم نے آپﷺ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائے۔ ہم نے آپ کی پیروی ان تمام چیزوں میں جو آپ نے لایا۔ پس ہم نے اللہ وحدہ کی عبادت کی، ہم نے اس کے ساتھ شرک نہیں کیا اور ہم نے حرام کرلیا جو آپ نے حرام قرار دیا اور اس کو حلال کرلیا جس کو آپ نے ہمارے لئے حلال کیا‘‘۔
پھر آپ نے کفار مکہ کے غیر انسانی سلوک کو بیان کیا کہ ’’اس کے بعد ہماری قوم ہماری دشمن ہو گئی، ہم کو سزائیں دیں، ہمارے دین کے معاملے میں ہم کو فتنہ و آزمائش میں مبتلا کیا، تاکہ وہ ہم کو اللہ تعالی کی عبادت سے بتوں کی پرستش کی طرف لے آئیں اور ہم حلال جانیں ان تمام بری و خبیث اشیاء کو جس کو ہم زمانہ جاہلیت میں حلال سمجھا کرتے تھے‘‘۔ اس طرح آپ نے کفار کے قاصدین کے موقف کو کمزور کردیا۔پھر نجاشی کے جذبات پر اثر انداز ہوتے ہوئے فرمایا ’’اے بادشاہ! جب انھوں نے ہم پر قہر برسایا، ظلم و زیادتی کی، ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان حائل ہو گئے تو ہم آپ کے ملک کا رخ کئے، دوسروں کو چھوڑکر آپ کو چنا، ہم آپ کے قرب و جوار میں رہنے کے خواہش مند ہوئے اور ہمیں امید ہے کہ آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں ہوگا‘‘۔
اسلام کے سفیر اور مہاجر صحابہ کے خطیب حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنی تقریر ختم کی تو سارے دربار پر ایک سکتہ تھا۔ بادشاہ وقت کے دل میں اس نئے دین کی طلب و جستجو بڑھ گئی، اس نے پوچھا ’’کیا تمہارے پاس تمہارے نبی پر نازل ہونے والا اللہ کا پیغام ہے؟‘‘ تو حضرت جعفر نے اثبات میں جواب دیا ’’ہاں! موجود ہے‘‘۔ اس پر نجاشی نے پیش کرنے کی خواہش کی۔ چوں کہ بادشاہ عیسائی اور دیندار تھا، دربار میں دیگر عیسائی بھی موجود تھے۔ آپ نے آیات قرآنی کے انتخاب میں حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سورہ مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی، جس میں حضرت زکریا، حضرت یحیی، حضرت مریم اور حضرت عیسی علیہم السلام کا اختصار کے ساتھ کافی و شافی ذکر ہے اور بعض ان حقائق کا اظہار ہے، جو انجیل میں موجود نہیں ہے۔ (سلسلہ صفحہ 2 پر)