چمن پر بجلیاں منڈلا رہی ہیں
کہاں لے جاؤں شاخ آشیانہ
نتائج کا اونٹ …
لوک سبھا انتخابات کے بعد نتائج کے منتظر عوام کو یہ خبریں مل رہی ہیں کہ فرقہ پرستوں کو اقتدار مل سکتا ہے۔ سب سے بڑی جماعت کانگریس کے لئے سیاسی جدوجہد کا مشکل مرحلہ شروع ہوگا۔ عام آدمی پارٹی نے لوک سبھا کی 422 حلقوں پر اپنے امیدوار کھڑا کئے ہیں لیکن اس کے حق میں 100 نشستیں ملنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ بالفرض عام آدمی پارٹی کا مظاہرہ کمزور ہو تو بی جے پی کو این ڈی اے حکومت بنانے کا موقع ملے گا یا تیسرے محاذ کو تشکیل حکومت کی ذمہ داری لے گی اس سے ہٹ کر قومی سطح پر ایک مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرنے کیلئے کانگریس کس حد تک تیار رہے گی یہ غور طلب ہے۔ ملک کی قدیم قومی پارٹی کی حیثیت سے کانگریس کو اس وقت داخلی طور پر خاندانی حکمرانی کے تنازعہ کا شکار دیکھا جارہا ہے۔ پرینکا گاندھی اور راہول گاندھی کی سیاسی مقبولیت کا تقابل کرنے والوں نے اپنی آنکھ سے جو چیزیں دیکھی ہیں اس کے مطابق پرینکا گاندھی اپنے بھائی کا سیاسی مستقبل بن گئی ہیں۔ اس لئے انہیں سیاسی مہم تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔ کانگریس کو اپوزیشن میں بیٹھنے کی ضرورت پڑے تو وہ ایک اچھی طاقتور اپوزیشن کا رول ادا کرنے میں دیانتدارانہ مظاہرہ کرے گی یا نہیں یہ مرکز کے انتخابی نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ بی جے پی کو اقتدار یوں ہی مل جائے تو وہ سیاسی من مانی کے تمام ریکارڈ توڑنے کا مظاہرہ کرے گی۔ اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس نے کمزور مظاہرہ کیا تو آئندہ پانچ سال تک عوام کو ایک بھیانک صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ان دنوں کانگریس کی خاندانی حکمرانی کے بارے میں جس طرح کے چرچے ہورہے ہیں اس سے پارٹی کی ساکھ امیٹھی اور رائے بریلی میں بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
کانگریس قائدین کا ایک گروپ پرینکا گاندھی کو سرگرم سیاست میں لانے کیلئے پرزور مہم چلا کر ہار چکا ہے۔ بلاشبہ پرینکا گاندھی میں اپنی دادی اندرا گاندھی کی صلاحیتوں کو تلاش کرنے والوں کو دھکہ پہنچا ہے کہ صدر پارٹی اس مرتبہ بھی پرینکاگاندھی کی سحر انگیز شخصیت سے استفادہ نہیں کیا۔ لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلہ میں وارانسی کے اندر ان کا روڈ شو اگرچیکہ مودی کے روڈ شو کا پرزور جواب سمجھا جارہا ہے لیکن مقامی رائے دہندوں کو کس حد تک مطمئن کرسکے یہ تو رائے دہی کے ووٹ فیصد سے معلوم ہوگا۔ سیاسی انتخابی مہم کو صرف جذباتی یا خاندانی قربانیوں کے تذکرہ سے نہیں چلایا جاسکتا۔ راہول گاندھی نے یہی کیا ہے۔ اپنے خاندانی قائدین کی قربانیوں خاص کر دادی اندرا گاندھی اور والد راجیو گاندھی کی قربانیوں کے حوالے سے ووٹ مانگے ہیں۔ موجودہ دور کے رائے دہندہ کو جذبات سے زیادہ ترقیاتی کاموں اور مستقبل کے ترقی پسندانہ پالیسیوں کے ذریعہ راغب کیا جاسکتا تھا مگر راہول گاندھی اس میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ نریندر مودی کا جواب تلاش کرنے سے قاصر کانگریس کو پارلیمنٹ میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑے تو پارٹی کی داخلی طاقتوں کے درمیان پیدا ہونے والی طوفانی ناراضگی کو کس طرح دور کرسکے گی یہ اس کی قیادت کی صلاحیتوں پر منحصر ہوگا۔ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے نریندر مودی کا کام گذشتہ 6 ماہ قبل تک سیاسی منظر سے دور تھا۔ بی جے پی کے اندر ہی مودی کی محالفت میں جنگ چھڑ گئی تھی۔ بی جے پی کی حلیف پارٹیوں نے بھی مودی کی شدت سے مخالفت کی تھی لیکن اس وقت نریندر مودی ہی بی جے پی کی انتخابی مہم کے اول دستہ لیڈر بن گئے۔
نئی حلیف پارٹیاں بھی این ڈی اے کی صف میں شامل ہوگئی ہیں لیکن لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلے میں آر ایس ایس قائدین سے مودی کی ملاقات اور صدر بی جے پی راجناتھ سنگھ کا آر ایس ایس کے اعلیٰ شخصیتوں کے ساتھ خصوصی اجلاس سے قیاس آرائیوں کو تقویت مل رہی ہے کہ چائے والا کی حیثیت سے خود کو مقبول کرنے والے مودی کو برہمن واری لابی وزیراعظم کی حیثیت سے قبول کرنے تیار رہے گی یا نہیں۔ آر ایس ایس کا ٹولہ برہمن نواز لیڈر کو آگے بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔ نریندر مودی کی پسماندہ طبقات سے وابستگی یا ان کی ذات سے متعلق آر ایس ایس قائدین کو ایک نئی سوچ اور فکر میں مبتلاء کررہا ہے تو وزیراعظم کی حیثیت سے مودی کی امیدواری بھی کئی زاویوں سے مشکوک رہے گی۔ موقتی طور پر وزیراعظم بن جانے سے مودی زیادہ مدت تک حکومت کرسکیں گے۔ یہ بھی ناقابل یقین ہے ایسے میں تیسرے محاذ کی جانب امید کی نگاہ سے دیکھنے والی پارٹیوں کو ایک سیاسی مضبوطی ملتی ہے تو عام آدمی پارٹی کی حمایت سے مرکز میں اقتدارکا رخ سیکولر گروپ کی طرف آسانی سے ہوسکتا ہے۔ غور طلب امر یہ ہیکہ آر ایس ایس ایک اجتماعی سوچ کا حامل گروپ ہے جبکہ نریندر مودی نے خود اپنی انفرادی شخصیت کو پروان چڑھایا ہے تو آر ایس ایس اس انفرادی شخصیت کی حامل طاقت کو کس حد تک برداشت کرے گی یہ بہت جلد پتہ چلے گا۔