مولانا غلام رسول سعیدی
نبی چوں کہ اللہ تعالی کے پاس سے آتا ہے، اس لئے اس کا اصل مقام اللہ تعالی کی ذات میں انہماک اور اس کی صفات میں استغراق ہوتا ہے۔ وہ اپنی فطرت اور مزاج سے اللہ تعالی کے جلووں میں کھویا رہتا ہے۔ نبی کی خلت اللہ کا دیدار اور اس کی جلوت اللہ کی شنید ہوتی ہے،وہ اسی کی تجلیات میں محو رہتا ہے۔ لیکن چوںکہ اللہ تعالیٰ کو نبی کے ذریعہ مخلوق کی ہدایت مقصود ہوتی ہے، اس لئے وہ فرشتوں کو بھیج کر نبی کو اس عالم محویت سے ہٹاتا ہے اور مقام بعثت پر فائز کرتا اور بتاتا ہے کہ ’’پیارے! تم تو منزل رسیدہ ہو، ذرا اس امت کو بھی مقام آشنا کردو۔ جس محویت اور انہماک سے ہمیں دیکھتے ہو، اس دید کا کچھ حصہ امت کو بھی عطا کردو۔ اٹھو! پنجۂ ابلیس میں اسیر لوگوں اور ضلالت کے ماروں کو صراط مستقیم دکھادو۔ یہ مخلوق اپنی بدکاریوں کے سبب جہنم کے کنارے آپہنچی ہے، اسے آگ میں گرنے سے بچالو۔ اپنی انقلاب آفریں نظروں سے کام لو اور اس معاشرہ کو بدل ڈالو۔ بت پرستی کے متوالوں کو توحید کا رسیا کردو اور ابلیسی کام کرنے والوں کو فرشتوں کی پاکیزگی دے دو‘‘۔
نبی اس انسان کو کہتے ہیں، جسے اللہ تعالی نے شریعت کی تبلیغ پر مامور کیا ہو، خواہ وہ شریعت سابقہ ہو یا جدیدہ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’اللہ تعالی نے نبیوں کو بھیجا، جو مؤمنوں کو بشارت دیتے تھے اور کفار کو عذاب سے ڈراتے تھے اور ان پر کتاب نازل کی (یعنی مجموعہ احکام، خواہ بصورت صحیفہ ہو یا بشکل وحی) تاکہ وہ اس کے مطابق لوگوں کا فیصلہ کریں‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۲۱۳)
نبوت کا تحقق وحی الہی ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جو پیغمبر بھیجے، وہ مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے‘‘ (سورۃ النحل۔۴۳) نیز فرمایا ’’جس طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے، اسی طرح ہم نے نوح اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) کی طرف وحی نازل کی تھی‘‘۔ سورۃ النساء۔۱۶۳)
نبی کی شرائط میں سے یہ ہے کہ وہ اپنی صداقت پر معجزہ پیش کرے، کیونکہ بغیر معجزہ کے نبوت صادقہ اور نبوت کاذبہ میں امتیاز نہیں ہوسکتا۔ نیز صحیح بخاری میں ہے کہ انبیاء میں سے کوئی نبی نہ تھا، مگر اسے ایسی نشانیاں دی گئیں، جو ایک بشر کے ایمان لانے کے لئے کافی تھیں۔ نبی کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ جس قوم کی طرف مبعوث ہوا، اس کی زبان جاننے والا ہو، کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے ’’ہم نے کسی قوم کی طرف رسول نہیں بھیجا، مگر اس قوم کی زبان میں‘‘ (سورہ ابراہیم۔۴) اور یہ تو بالکل بدیہی بات ہے کہ نبی پر جو وحی ہوتی ہے، وہ اس کا مفہوم اور مطلب پوچھنے میں دوسروں کا محتاج نہیں ہوتا۔
اللہ تعالی انبیاء کرام کے حق میں فرماتا ہے کہ ’’اللہ تعالی نے حضرت آدم، حضرت نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا کی ہے‘‘ (آل عمران۔۳۳) اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام تمام مخلوق میں سب سے زیادہ پسندیدہ صفات کے حامل ہوتے ہیں اور فضائل و کمالات کے لحاظ سے دنیا میں کوئی ان کا ہمسر نہیں ہوتا۔ اس آیت کے بموجب نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں میں جسمانیت اور عقل کے لحاظ سے کامل ہو۔ علم و فضل میں تمام لوگوں سے بڑھ کر ہو، قابل نفرت صفات سے منزہ ہو، اس کی سیرت پاکیزہ اور اخلاق حمیدہ ہوں، حوصلہ مند اور جری ہو، کفار سے مرعوب نہ ہو اور آوازۂ حق سنانے کے لئے بڑے سے بڑے فرعون کو بھی خاطر میں نہ لاتا ہو۔ نبی اللہ تعالی کا نائب ہوتا ہے، اس کی خوشنودی اللہ کی مرضی اور اس کا حکم اللہ کا فرمان ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے غیر مستقل نبوت کا سہارا لیا ہے، اس لحاظ وہ اپنے آپ کو کبھی امتی نبی، کبھی غیر تشریعی نبی اور کبھی ظلی اور بروزی نبی کہتا رہا، لیکن یہ تمام اصطلاحات غیر اسلامی ہیں، قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نبی کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالی سے وحی حاصل کرکے لوگوں کو پہنچائے، خواہ اسے شریعت سابقہ کی وحی کی جائے یا جدیدہ کی، اور جس شخص کو اللہ تعالی نے یہ منصب عطا فرما دیا، وہ حقیقی، مستقل اور تشریعی نبی ہے، جب کہ ظل، بروز اور امتی نبی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے فرمان میں یہ بھی ظاہر کردیا ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے، جس کی طرف اللہ وحی فرمائے (سورۃ النساء۔۱۶۳۔ سورۃ النحل۔۴۳) اور یہ بھی بتادیا کہ نبی کے ذمہ وحی سے حاصل شدہ احکام کو بیان کرنا ہے۔ (سورۃ البقرہ۔۲۱۳)
پس جو شخص وحی کا دعویٰ کرتا ہے، وہ حقیقت میں نبوت مستقلہ کا دعویٰ کرتا ہے، کیونکہ نہ نبوت کا اس کے سوا کوئی اور مفہوم ہے اور نہ ہی نبوت غیر مستقل ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ واجب اور مستحق عبادت ہے، اس کے سوا الوہیت کا اور کوئی مفہوم نہیں ہے، اسی طرح وحی اور اس کی تبلیغ کے سوا نبوت کا کوئی مفہوم نہیں اور جس طرح کوئی شخص ظلی اور بروزی خدا نہیں ہوسکتا، اسی طرح کوئی شخص ظلی اور بروزی نبی بھی نہیں بن سکتا۔ِ (اقتباس)