نبوت کی کرنیں

فاطمہ قریشی

جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ چھوڑا تھا، اُس وقت یوں لگ رہا تھا کہ مکہ کی آبرو لُٹ گئی۔ پھر اس کے بعد کفار مکہ کے بڑے بڑے زعما میدانِ بدر میں فنا کردیئے گئے۔ ہر ایک کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ یہ آگ جلتی تو رہی، لیکن حق کی شمع روشن تر ہوتی رہی اور باطل روز بروز مٹتا رہا۔

آج مکہ میں افرا تفری ہے، لوگوں میں بے چینی اور کھلبلی مچی ہوئی ہے، لوگ حیران و پریشان ہیں، خانۂ کعبہ کے اِرد گرد مجمع اکٹھا ہے اور یہ اَفواہ گرم ہے کہ مسلمانوں کا لشکر مکہ کے قریب ہے۔ پھر کچھ دیر بعد اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کا لشکر شہر کے بہت قریب پہنچ چکا ہے اور جب چاہے حملہ آور ہوسکتا ہے۔ کئی لوگ جنگ کے لئے تیار ہیں، اس کے باوجود خوف و دہشت کا عالم طاری ہے، لیکن حملہ نہیں ہوا۔

شام کے وقت ابوقبیس کی چوٹیوں پر نرم دُھوپ ہے، تین سوار آئے اور ان تین مسلم سواروں کے ساتھ مکہ کے رئیس اور جانے پہچانے چہرے بھی شامل ہیں۔ ابوسفیان نے اعلان کیا: ’’سنو مکہ والو! خوش خبری سنو! جنگ نہیں ہوگی، سب لوگ اپنے اپنے ہتھیار رکھ دو، کوئی شورش نہ کرو اور امن و امان قائم رکھو‘‘۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مکہ میں اطمینان کی لہر دَوڑ گئی۔ رؤسا خوش، غرباء خوش، مرد و خواتین خوش، ضعیف خوش، بچے اور غلام بھی خوش۔ خوشی و مسرت سے ان کے چہرے بھی روشن ہو گئے اور شدتِ جذبات میں اُن کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے کہ ’’ہم آزاد ہیں‘‘۔ اسی دوران لات نے منات سے کہا: ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر ایک دوسرے کو الوداع کہا اور آپس میں دونوں نے یہ طے کیا کہ ہم پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں گے کہ ’’اس پاک و طاہر مسجد حرام کو ہم اپنے ناپاک وجود سے آزاد کر رہے ہیں اور ہماری گزارش ہے کہ ہم سب کو مکہ کی دہلیز (یعنی راستوں) میں دفن کردیں، تاکہ مقدس حاجیوں کے قدم ہمیں تاقیامت روندتے رہیں‘‘۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک ایک بت گرتا رہا اور سجدہ ریز ہوتا رہا۔

آج بھی جب ہم اور آپ مسجد حرام میں قدم رکھتے ہیں اور لَبَّیْک کی صدا بلند کرتے ہیں تو ہماری اس پکار کے ساتھ اُن بتوں کی بھی لَبَّیْک سنائی دیتی ہے اور جب حجاج کرام واپس لَوٹتے ہیں تو یہ بت پکار پکارکر کہتے ہیں: ’’اے پیارے حاجیو! لَبَّیْک کو یاد رکھو اور اپنے وطن جاؤ تو یہ نہ بھولنا کہ تم نے خدائے بزرگ و برتر کو حاضر و ناظر جان کر لَبَّیْک کہا ہے‘‘۔ اگر ہم مسلمانوں نے اپنے اندر یہ کیفیت پیدا کرلی تو کیا خدائے واحد و صمد، رحمٰن و رحیم، جو ہماری شہِ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، ہمیں بھول سکتا ہے؟۔ کبھی نہیں۔
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے قریب ہے، بہت قریب، نہایت قریب۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ (آمین)