ناٹو کا اجلاس، ترکی سے اظہار یگانگت

شام میں زمینی افواج نہ بھیجنے ترکی کا ایک بار پھر ادعا، کرد افواج فوجی نشانوں میں شامل نہیں

بروسلز ۔22 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) دولت اسلامیہ اور کرد جنگجوؤں کے خلاف ترکی کی فوجی مہم کے حوالے سے طلب کئے گئے ناٹوکے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوے ناٹو کے سیکٹری جنرل سٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ ناٹو اپنے اتحادی ترکی کی جانب سے اپنی سرحدوں پر عدم استحکام سے نمٹنے کی کوششوں میں مکمل طور پر اس کے ساتھ ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ناٹو صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ ناٹو میں شامل 28 ممالک کے سفیر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ اور کرد جنگجوؤں کے خلاف ترکی کی فوجی مہم پر بات چیت کے لیے آج برسلز میں اکھٹے ہوئے ہیں۔ ابتدائی طور پر شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف فوجی کارروائی سے گریزاں تھا مگر ترکی نے اب نہ صرف امریکہ کو حملوں کے لیے اپنا فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے

بلکہ خود بھی شام میں دولتِ اسلامیہ اور شمالی عراق میں کرد جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کے خلاف فضائی کارروائی کی ہے۔ تاہم ترک حکام کا کہنا ہے کہ وہ شام میں زمینی فوج بھجوانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ں کے سکریٹری جنرل جینز سٹوٹنبرگ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی نے ناٹو کے آئین کے آرٹیکل 4 کے تحت یہ اجلاس طلب کیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی رکن ملک اپنی علاقائی حدود کو خطرے کے پیشِ نظر تمام رکن ممالک کا اجلاس طلب کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ناٹو کی تاریخ میں یہ پانچواں موقع ہے جب کسی رکن ملک نے ایسی درخواست کی ہے۔ ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ مل کر شمالی شام میں دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف عسکری کارروائیوں کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے میڈیا کو بتایا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ شمالی شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے

اور کمزور اور تباہ کرنے اور ایک ایسا علاقہ بنانے کی کوشش ہے جہاں داعش کے اثرات نہ ہوں۔ترکی اور امریکہ کی یہ بات چیت دولتِ اسلامیہ سے لڑائی کے بارے میں ترکی کی پالیسی میں حالیہ دنوں آنے والی تبدیلی کے بعد ہو رہی ہے۔تاہم ان حملوں کے بعد شام میں کرد پیش مرگا نے الزام عائد کیا ہے کہ ترکی نے سرحد سے متصل علاقوں میں انھیں بھی نشانہ بنایا ہے۔ترکی نے ان الزامات کی تحقیقات کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں کرد افواج اس کے حالیہ فوجی نشانوں میں شامل نہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی کا بھی کہنا ہے کہ ترکی امریکہ کی مرضی سے عراق میں کرد جنگجوؤں پر فضائی حملے نہیں کر رہا۔امریکہ اور ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے میں ’بفرزون‘ کے قیام کا منصوبہ امریکی ذرائع ابلاغ کی نامعلوم حکام سے بات چیت کے دوران سامنے آیا۔